فرانسیسی حکومت کی جانب سے مختلف وجوہات کی آڑ میں مساجد کو ہدف بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینن نے گزشتہ روز مقامی ٹی وی سی نیوز کو بتایا کہ پیرس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع شہر بووئے کی ایک مسجد کو چھ ماہ کے لیے بند کیا جا رہا ہے۔ مسجد کو بند کرنے کا فیصلہ اس کے امام کے ناقابل قبول اندازِ تبلیغ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ مسجد کے امام اپنے خطبوں میں عیسائیوں، ہم جنس پرستوں اور یہودیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

علاقے کے حکام پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ مسجد کو بند کرنے پر غور کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ امام نے خطبات میں نفرت، تشدد اور جہاد کے دفاع پر اکسایا تھا۔
ایک مقامی اخبار ’’کوریئر پیکارڈ‘‘ نے مسجد کی منتظم کمیٹی کے ایک وکیل کے حوالے سے بتایا کہ مسجد کے امام کے خطبے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا اور مقامی عہدیداروں کے خط کے بعد امام کو ان کے فرائض سے معطل کر دیا گیا۔
وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینن نے رواں سال کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ فرانس بنیاد پرست اسلامی پروپیگنڈا پھیلانے کے شبہے میں عبادت گاہوں اور انجمنوں کے خلاف چھان بین میں اضافہ کرے گا۔

یہ کارروائی اکتوبر 2020 میں ایک ٹیچر سیموئیل پیٹی کے قتل کے بعد شروع ہوئی تھی جس نے چارلی ایبڈو میگزین میں شائع پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کو اپنی کلاس میں طلبہ کو دکھایا تھا۔
گزشتہ پیر کو وزیر داخلہ ڈرمینن سے زیرسماعت ایک مقدمے میں ججوں کی جانب سے سوالات بھی کیے گئے۔ اُن پر 2009 میں ایک خاتون سے جنسی زیادتی کا الزام ہے۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق حالیہ مہینوں میں فرانس کی کل 2623 مساجد میں سے 99 مساجد اور مسلم عبادت گاہوں کی تحقیقات کی گئیں کیونکہ ان پر’’علیحدگی پسند‘‘ نظریات پھیلانے کا شبہ تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
