
ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو ناکامی سے بچانے کے لیے کافی عرصے سے کوششیں جاری ہیں۔
طویل تعطل کے بعد رواں سال کے اختتام پر شروع ہونے والا گزشتہ دور ابتدائی مرحلے میں ہی جمود کا شکار ہوگیا تھا جب ایران کی طرف سے کیے گئے چند نئے مطالبات فریقین کے مابین نئی کشیدگی کا سبب بن گئے تھے۔
یورپی یونین کے مطابق مذاکرات کو اس لیے ملتوی کیا گیا تھا کہ ایران کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار کو وطن جا کر ایرانی قیادت سے مشاورت کرنے کا موقع دیا جا سکے۔
کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آئندہ پیر کو بحال ہونے والے ان مذاکرات کی سربراہی یورپی یونین کے اعلیٰ مندوب اینریک مورا کریں گے۔ یورپی یونین کے مطابق اس بات چیت میں ایران، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس کے نمائندے شریک ہوں گے۔
امریکا اس بات چیت میں بالواسطہ طور پر شریک ہوگا کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں امریکا کے اس معاہدے سے یکطرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا اور واشنگٹن تب سے عملاﹰ اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف کئی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں جو باراک اوباما کے دور میں اٹھا لی گئی تھیں۔
اسی طرح ایران نے بھی اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اس مقررہ حد سے کہیں زیادہ مقدار میں افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا جس کا تعین فریقین نے 2015ء کے معاہدے میں کیا تھا۔
ایران کے ساتھ یہ بین الااقوامی جوہری معاہدہ ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو صدر باراک اوباما کے دور میں طے پایا تھا جبکہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن امریکا کی اس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے اشارے دے چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News