امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئیے، پاکستان کے لئے امریکا ایک اہم پارٹنر ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا کے شعبہ گلوبل افیئرز کے زیر اہتمام ’پاک امریکا تعلقات اور جنوبی ایشیا کے محرکات پر پاکستان کا نقطہ نظر‘ کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد کیا گیا جس سے امریکا میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے خطاب کیا۔
پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے اپنے ابتدائی کلمات میں پاکستان کے ثقافتی اور تہذیبی ورثے، ملکی دلکش مناظر، جیو اسٹریٹجک اہمیت اور جیو اکنامکس کے وژن کو اجاگر کیا۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات کےقیام کو 75 سال ہونے کو ہیں اور رواں سال پاکستان اور امریکا اپنے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ منائیں گے۔
ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا کہ گذشتہ عرصے میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی رابطوں میں بہتری آئی ہے جبکہ پاکستان کے لئے امریکا ایک اہم پارٹنر ہے۔ امریکہ اب بھی ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی اور غیر ملکی ترسیلات کا بڑا ذریعہ ہے۔
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئیے۔ ہمارے دو طرفہ تعلقات سیکیورٹی اور جیو اسٹریٹجک کے علاوہ تجارت، سرمایہ کاری اور عوامی روابط پر مبنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کر رہی ہے جبکہ ہماری پالیسی اب جیو اسٹریٹجک سے جیو اکنامکس کی طرف مرکوز ہے۔
افغانستان کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کا یکساں موقف ہے اور دونوں ممالک افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان اور امریکا چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو جبکہ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے اقتصادی استحکام لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ممکنہ انسانی المیے کو روکنے اور معیشت کے استحکام اور پائیدار امن کے لئے عالمی برادری کو اقدامات اٹھانا ہوں گئے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن و استحکام سمیت ایک جامع حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاق رائے ہے۔
ڈاکٹر اسد مجید خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق بشمول خواتین کے حقوق کے تحفظ اور تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اگر انسانی المیے اور اقتصادی تباہی کو نہ روکا گیا تو پناہ گزینوں کے بحران کے ساتھ ساتھ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات کی سرگرمیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے جیو اکنامکس کے وژن کے حصول کے لیے علاقائی امن انتہائی اہم ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر ہر ناجائز قبضہ سے پورے خطے کا امن خطرے میں ہے۔
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر صحافتی برادری اور تجزیہ کار مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کی نسل کشی سمیت ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں صورت حال انتہائی سنگین ہے جبکہ بھارت نے مقبوضہ علاقے کے لوگوں پر اپنے وحشیانہ جبر کو دوگنا کر دیا ہے۔
پاکستانی سفری نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کو چاہئیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کو واپس لے جو جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی اور ماورائے عدالت قتل عام جیسے اقدامات جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حکومتی اقدامات کے ذریعے میڈیا کوخاموش کرایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تمام مسائل خصوصاً کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہئیے جبکہ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سےامریکا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ویبینار کے اختتام پر پاکستان سفیر نے شرکاء کے سوالات کے جوابات دیئے جبکہ پروگرام کی میزبانی یونیورسٹی آف ورجینیا شعبہ گلوبل افیئرز کے وائس پرووسٹ، ایمبیسڈر جان ڈی مل نے کی جبکہ ڈین لان سولومن نے ابتتائی کلمات کہے۔
علاوہ ازیں یونیورسٹی آف ورجینیا کے ڈین لون سولومن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
