
جرمنی کے دارالحکومت برلن کی ایک عدالت نے انسانی گوشت کھانے کے ارادے کے تحت ایک شخص کو قتل کرنے کے جرم میں ایک استاد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ ستمبر 2020ء میں کئی ماہ تک جرمن ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا تھا۔ گزشتہ روز عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے بعد مجرم باقی زندگی جیل میں ہی گزارے گا۔
جرمنی میں عمر قید کی مدت کم از کم پندرہ سال ہوتی ہے جس کے بعد قیدی عام طور پر پیرول کی درخواست دے سکتا ہے لیکن اس مقدمے میں چونکہ عدالت نے اسے ایک سنگین نوعیت کا جرم قرار دیا ہے لہٰذا اشٹیفان آر کو پندرہ برس قید کے بعد بھی رہا نہیں کیا جاسکتا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اشٹیفان آر نامی مجرم قتل اور مقتول کے جسم کی باقیات کو نقصان پہنچانے کا مرتکب قرار پایا ہے۔ جج نے سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جو تم نے کیا وہ ایک غیر انسانی عمل ہے۔
استغاثہ کے مطابق 42 سالہ استاد اشٹیفان آر نے متاثرہ شخص کو اپنے اپارٹمنٹ بلایا اور نشہ آور دوا پلا کر بے ہوش کر دیا۔ مجرم نے پھر مذکورہ شخص کی گردن کاٹ دی اور اس کے جنسی اعضاء کو کھانے کی نیت سے جسم سے الگ کر دیا۔ بعد ازاں قاتل نے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے برلن کے پانکو نامی علاقے میں چھپا دیا۔
قتل کے کئی ہفتے گزر جانے کے بعد پولیس کو اس علاقے سے انسانی اعضا ملے تھے جو ایک 43 سالہ لاپتہ شخص کے تھے۔
اس واقعے کی تفتیش کے دوران ملنے والے شواہد کے ذریعے پولیس نے اشٹیفان آر کے اپارٹمنٹ کا پتہ لگایا جہاں انہیں متاثرہ شخص کے باقی اعضاء، خون اور قتل کے لیے استعمال ہوئے آلات بھی مل گئے۔
مجرم نے عدالتی کارروائی کے دوران زیادہ تر خاموشی اختیار کیے رکھی تاہم اُس نے جرم کے ارتکاب سے انکار کیا۔
واضح رہے کہ جرمنی میں نجی معلومات مخفی رکھنے کے قوانین کے تحت مجرم کا پورا نام نہیں بتایا گیا اور متاثرہ شخص کی شناخت بھی ظاہر نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News