
روسی وزارت دفاع نے وسط ایشیائی ریاست قازقستان میں متعین روسی افواج کے اِنخلا کی تصدیق کر دی ہے۔ قازق شہر الماتی کے ایئرپورٹ پر روسی فوجیوں کو واپس لے جانے والا فوجی طیارہ بھی پہنچ چکا ہے۔
قازقستان میں نئے سال کے آغاز پر پیٹرولیم اور گیس مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر پھُوٹ پڑنے والے مظاہروں اور فسادات کے بعد علاقائی عسکری اتحاد کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (CSTO)کی جانب سے روسی قیادت میں 6 رکن ممالک کی افواج قازقستان میں تعینات کی گئی تھیں جس میں روس کے بھی دو ہزار فوجی شامل تھے۔
علاقائی عسکری اتحاد کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن سے امن فوج کی تعیناتی کی درخواست قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقائف نے کی تھی۔ 1992ء میں اس فوجی اتحاد کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ امن دستوں کو کسی رکن ملک میں تعینات کیا گیا تھا۔
روسی وزارت دفاع کے بیان میں واضح کیا گیا کہ قازقستان میں اہم تنصیبات کی نگرانی کے لیے روسی اور امن فوجی دستوں کو روانہ کیا گیا تھا۔ بیان کے مطابق مجموعی صورتحال بہتر ہونے پر امن دستوں کے اِنخلا کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں دس دن لگیں گے۔
عسکری اتحاد کے امن دستوں میں روس کے علاوہ بیلا روس، آرمینیا، تاجکستان اور کرغزستان کے فوجی بھی شامل تھے۔ اِس فوجی مشن کے اختتام کی ایک باضابطہ تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں فوجی اتحاد کے روسی کمانڈر جنرل اندری سردیئکوف نے مشن کے اختتام کا اعلان کیا۔
رواں ماہ کی ابتدا پر قازقستان کے معاشی مرکز الماتی میں ہزاروں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک تھے جس سے اس وسط ایشیائی ریاست میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔
حکومتی اندازوں کے مطابق ان مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ سے ملکی خزانے کو تقریباً تین بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ان مظاہروں کے دوران ایک ہزار دو سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتار شدگان میں کئی اہم حکومتی اہلکار اور صحافی بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News