
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے افغان ہم منصب امیر خان متقی کے ساتھ ایران میں ہونے والی ایک ملاقات میں کہا ہے کہ اِس خطے سے متعلق امریکی سیاسی اسٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ ایران اور افغانستان کو آپس میں لڑانا ہے۔
ایرانی خبر ایجنسی تسنیم کے حوالے سے خبر ایجنسی ڈی پی اے نے آج لکھا کہ ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان نے اس ملاقات میں کہا کہ امریکا اس خطے سے متعلق اپنے سیاسی ارادوں میں ہرگز کامیاب نہیں ہوگا۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھے جن کے نتیجے میں اُسے 20 سالہ افغان جنگ میں شکست ہوئی۔
اس موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ امریکا نے گزشتہ برس افغانستان سے فوجی اِنخلا تو کرلیا تاہم وہ اب بھی افغان سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
امیر متقی کے مطابق اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج 80 فیصد افغان آبادی کو غربت کا سامنا ہے جس کے لیے بھی امریکا ہی ذمے دار ہے۔
دارالحکومت تہران میں اتوار کی شام ہوئی اِس ملاقات کے دوران ایک ایرانی نیوز ویب سائٹ عصر کی ایران پر شائع شدہ ایک خبر کی وجہ سے کافی بے چینی بھی پیدا ہوئی۔
ویب سائٹ نے لکھا تھا کہ ایران حکومت تہران میں افغان سفارتخانے کی عمارت طالبان کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر اشرف غنی کے دور میں تہران میں تعینات کیے گئے افغان سفیر مبینہ طور پر ایران سے فرار ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان اور پہلی مرتبہ ایران کے دورے پر آئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایرانی ویب سائٹ کی خبر کی فوری طور پر تردید بھی کی۔
تہران میں افغان سفارتخانے کا طالبان کے حوالے کیا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوگی کیونکہ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی افغان سفارتخانے طالبان حکومت کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی حکومت کی طالبان حکومت کے حوالے سے سوچ ابھی غیر واضح ہے۔
ایران کے چند سیاسی حلقوں کے مطابق موجودہ طالبان اب پہلے والے طالبان نہیں رہے جبکہ کچھ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کئی واقعات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News