
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مشرقی یوکرائن میں باغیوں کے زیر اثر علاقوں کو بطور آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈونیسک اور لوہانسک نامی یوکرائنی سرحدی صوبوں میں روسی حمایت یافتہ باغی 2014ء سے یوکرائن کی افواج سے برسر پیکار ہیں اور وہ اِن علاقوں کو آزاد ریاستیں قرار دیتے ہیں۔ ان علاقوں میں کئی برسوں سے جنگ بندی معاہدہ مؤثر ثابت نہیں ہوسکا۔
حالیہ روسی پیشرفت سے خطے میں امن مذاکرات کا اختتام ہوسکتا ہے۔ مغربی طاقتوں کو خطرہ ہے کہ اس اقدام سے روسی افواج کا یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں داخل ہونا آسان ہوجائے گا۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ یہ یوکرائن کی خود مختاری، سلامتی اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی بڑی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے اسے ایک انتہائی سیاہ علامت قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد وہ اپنے ردعمل میں یوکرائن کے ساتھ اتحاد اور مضبوط تعلقات کے عزم کا اظہار کریں گے۔
روس کے اس اقدام نے یوکرائن کے ساتھ جاری بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ یوکرائنی سرحد پر پہلے ہی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ روسی فوجی تعینات ہیں۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن پر حملہ نہیں کرے گا تاہم امریکا نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیوٹن اس حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
مغربی اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ اب روس شہریوں کے تحفظ کے نام پر اپنے فوجیوں کو باغیوں کے زیراثر علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک میں داخل کردے گا۔
اس اعلان کے بعد قوم سے خطاب میں صدر پیوٹن نے کہا کہ جدید یوکرائن کو سوویت روس نے بنایا اور یوکرائن قدیم روسی سرزمین ہے۔
روسی صدر کے اعلان کے ردعمل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرقی یوکرائن میں باغیوں کے زیراثر علاقوں کے ساتھ تجارت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
امریکی صدارتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان علاقوں میں نئی سرمایہ کاری، تجارت اور امریکی شہریوں کی جانب سے مالی معاونت نہیں کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کے مطابق اس حکم کے تحت ایسے افراد پر پابندی لگائی جائے گی جو یوکرائن کے ان علاقوں میں کام کرتے ہیں۔
اُدھر نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے بھی ڈونیسک اور لوہانسک کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کے روسی فیصلے کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یوکرائن کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے اور منسک معاہدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں روس پر الزام لگایا کہ ایسا کرنے سے روس یوکرائن میں مداخلت کی وجہ ڈھونڈ رہا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News