
عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے 2015ء میں ہوئے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے باہمی اقدامات کا لائحہ عمل طے کرلیا گیا ہے۔
سفارتکاروں کا دعویٰ ہے کہ امریکا اور ایران کو معاہدے میں واپس لانے کے لیے مفاہمت طے پانے کا مرحلہ قریب ہے تاہم ابتدا میں ایرانی تیل کی برآمدات پر عائد پابندیوں میں چھوٹ شامل نہیں ہے۔
ایران، روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین اور امریکی نمائندے معاہدے کے مسودے کی تفصیل پر ابھی بات چیت کر رہے ہیں۔ ویانا مذاکرات میں شریک مندوبین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات طے پا گئے ہیں لیکن کچھ متنازع مسائل ابھی تک تصفیہ طلب ہیں۔
اس سمجھوتے کا مقصد ایران کے خلاف پابندیاں اٹھانے کی اصل ڈیل پر واپس آنا ہے جس میں ایرانی تیل کی فروخت میں کمی بھی شامل ہے۔ اس کے بدلے میں اس کی جوہری سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کے مقاصد مکمل طور پر پرامن ہیں اور وہ شہری استعمال کے لیے جوہری ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار تیار کیے بغیر کسی اور ریاست نے اتنی اونچی سطح تک یورینیم کی افزودگی نہیں کی ہے۔
سفارت کاروں کے مطابق معاہدے کا مسودہ 20 صفحات سے زیادہ طویل ہے۔ معاہدے کے باقی فریقوں کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کا سلسلہ طے کیا گیا ہے۔
دیگر اقدامات کے بارے میں سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے تحت جنوبی کوریا کے بینکوں میں پڑے قریباً 7 ارب ڈالر کے ایرانی فنڈز کو منجمد نہ کرنا اور ایران میں قید مغربی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے جس کے بارے میں امریکا کے مرکزی مذاکرات کار رابرٹ ملی نے تجویز دی ہے کہ اس معاملے کو معاہدے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
بہت سے سفارت کاروں کے مطابق ایک مرتبہ جب معاہدے کی منظوری کے بعد اقدامات کا ابتدائی سلسلہ شروع ہو جائے اور اس کی تصدیق ہو جائے گی تو پھر پابندیوں کے خاتمے کا اہم مرحلہ شروع ہوگا۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ان مراحل کی مدت پر ابھی تک اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
مختلف عہدے داروں نے معاہدہ طے پانے سے لے کر ایک سے تین ماہ کے درمیان دوبارہ نفاذ کے دن کا تخمینہ لگایا ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران افزودگی کی 3.67 فی صد کی حد کی بنیادی جوہری حدود میں واپس آئے گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News