ایران کا کہنا ہے کہ اِس نے 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اپنی تجاویز کا حتمی مسوّدہ مغربی ممالک کے حوالے کر دیا ہے اور اب فیصلے کا انحصار مغربی ممالک پر ہے۔

ایران کے مطابق جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات میں کوئی بھی ممکنہ پیش رفت اب اس بات پر منحصر ہے کہ مغربی ممالک کیا فیصلے کرتے ہیں۔
گزشتہ روز دارالحکومت تہران میں آئرش ہم منصب سائمن کووینی کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی اب ممکن ہوگئی ہے۔

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ویانا میں جاری مذاکرات کے دوران ہی مغربی ممالک کو ایران پر عائد پابندیوں کو ختم کر دینا چاہیے، ایران کے لیے یہی بہتر ہے کہ ویانا میں کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم جلد از جلد ایک اچھا معاہدہ چاہتے ہیں لیکن یہ منطقی بات چیت کے دائرے میں ہو اور ایرانی قوم کے حقوق کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔

یورپی یونین کو بھی اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی بہت قریب ہے۔ یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے ایرانی وزیر خارجہ سے بات چیت کے بعد یہ بات کہی۔
تاہم امریکا اب بھی اس معاہدے کی بحالی کے حوالے سے محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ امریکا ویانا میں نظر آنے والی پیشرفت کے حوالے سے کچھ زیادہ احتیاط برتے گا۔

واضح رہے کہ 2015ء کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ معاہدہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) یا مشترکہ جامع منصوبہ عمل کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے کی رُو سے پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یکطرفہ طور اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

ویانا میں بات چیت کے کئی ادوار کے بعد رواں ماہ امریکا نے ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
