
یمن کے صدر عبد الربہ منصور ہادی نے اپنے اختیارات صدارتی قیادت کی کونسل کو منتقل کر دیے ہیں اور نائب صدر علی محسن الاحمر کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا ہے۔
ٹیلیویژن پر اپنے خطاب میں صدر منصور ہادی نے کہا کہ نئی صدارتی کونسل برسوں سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے حوثی باغیوں سے مستقل جنگ بندی اور سیاسی تصفیے پر مذاکرات کی قیادت کرے گی۔
ماہِ رمضان کے آغاز پر فریقین میں دو ماہ کی جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت اس دیرینہ تنازع کے سیاسی حل کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈبرگ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی ثالثی سے یمن میں ہفتے کے روز سے ہونے والی جنگ بندی کی وجہ سے تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے تاہم صورتحال بہت نازک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مارب کے آس پاس کچھ فوجی کارروائیوں کی اطلاعات بھی ہیں جو تشویشناک ہیں۔ ہمیں اس موقع کا استعمال احسن طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ بندی ہمیں تنازعات کو ختم کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
ہانس گرنڈبرگ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری خود فریقین پر عائد ہوتی ہے تاہم اقوام متحدہ ایک ایسا میکنزم تیار کرنے پر کام کر رہا ہے جس سے فریقین کو تنازع کے سیاسی حل کی طرف آنے کا موقع ملے گا۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت حدیدہ کی بندرگاہ تک ایندھن کی آمد اور دارالحکومت صنعا میں مسافر پروازوں کی اجازت ہے۔ یہ دونوں علاقے باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایندھن کی قلت سے قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا، یہاں تک کہ ہسپتالوں کو بھی بند کرنا پڑا۔
یمن تنازع بنیادی طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک پراکسی جنگ ہے۔ یہ تنازع ستمبر 2014ء میں شروع ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا تھا۔ مارچ 2015ء میں سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد یمن حکومت کی بحالی کی کوششوں میں شامل ہوا۔
اس تنازع میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوجی اور عام شہری مارے جا چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور ملک کی ایک بڑی آبادی کو شدید غذائی کمی کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News