
امریکی عدالت کا وینزویلا کے زیر حراست شہریوں کی ملک بدری روکنے کا حکم
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو مبینہ وینزویلی گینگ ممبران کی ملک بدری عارضی طور پر روکنے کا حکم دے دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ افراد ٹیکساس کے شمالی علاقے میں زیر حراست ہیں، جہاں انہیں 18 ویں صدی کے ایک جنگی قانون کے تحت قید کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ زیر حراست افراد کو عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مبینہ وینزویلی گینگ ارکان کو ایل سلواڈور کی بدنام زمانہ جیل منتقل کرنے کے لیے 1798 کے ’’ایلین انیمیز ایکٹ‘‘ کا سہارا لیا ہے جو صدر کو ’’دشمن ملک‘‘ کے شہریوں کو قانونی طریقہ کار کے بغیر گرفتار کرنے اور ملک بدر کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
یہ قانون ماضی میں صرف تین بار جنگ کے دوران استعمال ہوا ہےجب کہ آخری بار یہ دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیا گیا تھا جب جاپانی نژاد افراد کو بغیر مقدمے کے قید اور حراستی کیمپوں میں منتقل کیا گیا تھا۔
جنوری میں دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ٹرمپ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کو کئی قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے وینزویلا کے گینگ ’’ٹرین دے آراگوا‘‘ پر امریکہ میں حملہ کرنے، کوشش کرنے یا اس کی دھمکی دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
امریکی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق 8 اپریل تک 261 وینزویلی باشندوں کو ایل سلواڈور بھیجا گیا جن میں سے 137 کو مذکورہ قانون کے تحت ملک بدر کیا گیا ہے۔
15 مارچ کو ایک ماتحت عدالت نے ان ملک بدریوں کو عارضی طور پر روک دیا تھا تاہم 8 اپریل کو سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر یہ قرار دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مذکورہ قانون کے تحت گینگ ممبران کو ملک بدر کرنے کا اختیار حاصل ہے بشرط یہ کہ انہیں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا موقع دیا جائے۔
زیر غور مقدمے میں کہا گیا کہ شمالی ٹیکساس میں زیر حراست وینزویلی شہریوں کو ملک بدری سے متعلق اطلاعات انگریزی زبان میں دی گئیں حالانکہ ان میں سے ایک قیدی صرف ہسپانوی زبان بولتا ہے۔
امریکی سول لبرٹیز یونین کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان افراد کو عدالت میں فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق ہونے کے باوجود اس بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔
فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا ’’اگر عدالت مداخلت نہ کرتی تو درجنوں یا سیکڑوں زیر حراست افراد کو ایل سلواڈور کی ایسی جیلوں میں بھیج دیا جاتا جہاں انہیں عمر قید کا سامنا ہوسکتا تھا اور وہ بھی بغیر اس کے کہ وہ اپنے خلاف الزامات کو چیلنج کرسکیں۔
سپریم کورٹ کے ججز کلیرنس تھامس اور سیموئل ایلیٹو نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
واضح رہے کہ جنوری میں اپنے دوسرے افتتاحی خطاب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام غیر ملکی گینگوں اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کو امریکا سے ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News