
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سےبابری مسجد کیس کافیصلہ سنادیاگیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ سناتے ہوئےمسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالےکرنے کاحکم دیاہے اورمرکزی حکومت کو رام مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا،پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل ہیں۔
کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کےچیف جسٹس کاکہناہے کہ کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی جب کہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کافیصلہ سناتے ہوئے کہناتھاعدالت کے لیےمناسب نہیں کہ وہ مذہب پر بات کرے، عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی کمیونٹیز کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کاکہناہےبادی النظرمیں جو شوہد ملے ان سےیہی پتاچلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام کی جنم بھومی تھی اوربابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کوخالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پرتعمیر کیاگیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق زمین سرکاری تھی جب کہ بابری مسجد کی شہادت قانون کی خلاف ورزی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔
سنی وقف بورڈ کو5 ایکڑ متبادل زمین دینےکاحکم
بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیاہے کہ سنی وقف بورڈ کو5 ایکڑ متبادل زمین دی جائے۔
بھارتی میڈیاکے مطابق اتر پردیش میں تمام اسکول، کالج اور تعلیمی ادارے 11 نومبر تک بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ایودھیا سمیت پورے بھارت میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کےنئے گئے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں سنّی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
چھ دسمبر1992میں ہندووں کے مشتعل گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے وہاں بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اورہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
بابری مسجد کو شہید کیے جانے کےبعد سپریم کورٹ نے اس مقام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
بعدازاں 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نےاپنافیصلہ جاری کرتے ہوئےحکم دیا کہ بابری مسجد کی 2.77 ایکڑ زمین کو تینوں فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان تقسیم کی جائے۔
فریقین نےالہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے تنازعہ کے حل کے لیے 3 رکنی ثالثی پینل بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج فقیر محمد ابراہیم خلیف اللہ کی سربراہی میں قائم کیا تھا جو کوئی بھی حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
ثالثی پینل کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان جماعتیں تنازع کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 6 اگست 2019 سے فریقین کی 14 اپیلوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی اور 16 اکتوبر کو بالآخرکیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ مسجد ضروری نہیں ہے، نماز کہیں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ فیصلہ میں حکومت کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مسجد کی جگہ کواپنے استعمال میں لے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News