برطانیہ عام انتخابات،’’اسلامو فوبیا‘‘کےباوجودپاکستانی نژاد مسلم سیاستدان کامیاب
برطانیہ میں عام انتخابات 2019 میں پولنگ کاعمل مکمل ہونے کےبعدووٹوں کی گنتی جاری ہے ایگزٹ پول کے مطابق بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی سادہ اکثریت سے حکومت بنانےکے بلکل قریب آچکی ہے ۔
عام انتخابات میں کنزرویٹوپارٹی 347 نشستیں حاصل کرکے کامیاب ہوگئی ہے ۔ لیبر پارٹی 202 نشستوں کےساتھ دوسرےنمبرپرہے۔
اسلامو فوبیاکےباوجود برطانیہ کےعام انتخابات میں 15 پاکستانی نژادمسلمان امیدواراپنی اپنی نشستوں پر کامیاب ہوگئےہیں ۔
کامیاب امیدواروں میں لیبرپارٹی کی پاکستانی نژادناز شاہ بریڈ فورڈ سےکامیاب ہوئیں، خالد محمود نے برمنگھم، یاسمین قریشی ساؤتھ بولٹن، افضل خان مانچسٹر کے علاقےگورٹن، طاہر علی برمنگھم کے ہال گرین، محمد یاسین بریڈ فورڈ شائر، عمران حسین بریڈ فورڈ ایسٹ، زارا سلطانہ کوونٹری ساؤتھ اور شبانہ محمود برمنگھم لیڈی ووڈ سے ایک بار پھر کامیاب ہوئیں ۔
جبکہ کنزرویٹو پارٹی کی پاکستانی نژاد امیدوار نصرت غنی وئیلڈن سے، عمران احمدخان ویک فیلڈ سے، ساجد جاوید برومس گرو سے، عطاء الرحمٰن چشتی گلنگھم سے اور ثاقب بھٹی میریڈن سے کامیاب ہوئے ہیں۔
دوسری جانب لیبر پارٹی رہنما جیرمی کوربن نے عام انتخابات میں اپنی شکست کوتسلیم کیاہے، انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ رات لیبر پارٹی کے لیے مایوس کن رہی۔ تاہم اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے بھی اپنی سیٹ جیت لی ہے۔
عام انتخابات 2019 کی خاص باتیں
برطانیہ کےعام انتخابات میں سب سےاہم بات سال 2017 کےانتخابات کےمقابلےمیں بڑی تعدادمیں ایسےامیدوارحصہ لے رہےہیں جن کاتعلق پاکستان سےہے۔
گزشتہ انتخابات میں پاکستانی نژاد امریکی امیدواروں کی تعداد 40 تھی جبکہ حالیہ انتخابات میں 70 پاکستانی نژاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں جنہیں کنزرویٹو، لیبر اور لبرل ڈیموکریٹ پارٹیز نے ٹکٹ دیے تھے جبکہ کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت سے بھی الیکشن لڑ ا۔
2۔برطانیہ میں عام انتخابات عموماًہرپانچ سال بعدہوتےہیں لیکن حالیہ عام انتخابات گزشتہ پانچ سال کے دوران تیسرا الیکشن ہے ۔
3۔عام انتخابات 2019 کی خاص بات یہ بھی ہے کہ1923 کے بعد برطانیہ میں یہ دوسرے انتخابات ہیں جو دسمبر میں ہورہے ہیں ، اس سے قبل 1974 میں بھی سردیوں میں انتخابات ہوئے تھے۔
4۔2017 کےبعدعام انتخابات 2022 میں ہوناتھےتاہم اکتوبر 2019 میں برطانوی پارلیمنٹ اکثریتی ووٹوں سے نئےانتخابات کی منظوری دی تھی ۔
واضح رہےکہ برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنےیااس سے نکل جانےکےحوالےسے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔
ڈیوڈکیمرون کےاستعفےکےبعدبرطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھاجن کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
