
لڑکی کی پیدائش معاشی طور پر ناقابل قبول عمل ہے
کسی بھی خاندان میں بچے کی پیدائش کو ہمیشہ ایک نعمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے ساتھ نئی زندگی، اور انسانی تخلیق میں تجدید کا احساس لاتا ہے اور نسل کو آگے بڑھاتا ہے۔
بچے کی پیدائش کسی بھی تناظر میں اہم ہے۔ یہ خاص طور پر عورت کے لیے ایک سچائی ہے، کیونکہ اس کا جسم اسے ہارمونز کی افزائش کے ساتھ نئی زندگی کو سہارا دینے کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہ رحم ہی ہے جو بچے کو ایک طویل مدت تک اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ حاملہ ماں ہی ہوتی ہے جسے اس بات کو یقینی بناتی ہے۔
رحم کے انسانی نسل کی افزائش کے فعل کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض ثقافتوں میں حمل کا جشن منایا جاتا ہے، جب کہ بعض ثقافتوں میں یہ عورت کے لیے منحوس ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں حمل ہمیشہ سے ہی ایک انتہائی حساس موضوع رہا ہے اور شادی شدہ جوڑوں سے بچے پیدا کرنے کی توقع کی جاتی ہے، یہاں تک کہ بعض صورتوں میں شادی کی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی بچے کی پیدائش کی امید کی جاتی ہے۔
جوکہ جوڑے اور خاص طور پر عورت پر بہت زیادہ دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ صرف ایک صحت مند بچہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے،بلکہ ایک صحت مند لڑکے کی توقع کی جاتی ہے۔
کوئی مانے گا کہ اکیسویں صدی میں اس طرح کے رجعت پسندانہ طرز فکر کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہوگا، کہ یہ ایک غلط تصور کے سوا کچھ نہیں ہے۔تاہم، سچائی ہماری سوچ سے کہیں زیادہ پرفریب ہے ۔
عورت ڈرامے کا مرکز ہے، وہ بیک وقت ایک مرکزی کردار اور شکار ہے۔ اس سے بہت زیادہ توقع کی جاتی ہے، اور اگر وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو وہ جانتی ہے کہ آگے کیا ہے۔ بدقسمتی سے وہ خواتین جو لڑکا پیدا نہیں کر پاتیں، انہیں معاشرے کے غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات اکثریت کے لیے درست تسلیم کی جاتی ہے۔پہلوٹھی یا پہلے بچے کے طور پر لڑکی کی پیدائش کو عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے، اگر کھلے عام نہیں تو پھر غیرمحسوس انداز سے احساس دلایا جاتا ہے۔جس کا سامنا عورت کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ ہارمونز اور اپنی توانائی اور جسمانی ساخت میں ہونے والی تبدیلیوں سے نبردآما ہوتی ہے، اسے اکثر بالواسطہ یا بلاواسطہ طعنے سننے کو ملتے ہیں۔خاندان کے قریبی افراد یا پھر دیگر دور کے رشتوں یا ان لوگوں کی جانب سے جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اسے زہریلے تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔اوہ آپ کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے، مبارک ہو، لیکن اگر لڑکا پیدا ہوتا تو اچھا تھا، شاید اگلی بار بیٹا پیدا ہوجائے، جیسے تبصرے کافی عام ہیں۔ عام طور پر گھٹیا تبصروں کا مقصد عورت پر الزام عائد کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنا ’فرض‘ ادا کرنے میں ناکام رہی، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس کی ہم صنف یعنی خواتین کی جانب سے کیے جاتے ہیں ۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلی بار باپ بننے والا شخص اس سے مستثنیٰ ہے۔ نئے باپ کو، چاہے وہ کتنا ہی خوش یا غمگین ہو، اس کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ہے اور زیادہ تر معاملات میں اسے لڑکا پیدا کرنے کے لیے ’دوبارہ کوشش کرنے‘ کی تاکید کی جاتی ہے۔
سائرہ کے پاس اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، وہ ایک بینکر ہیں اور تین خوبصورت بیٹیوں کی ماں ہیں، جہاں وہ اس حقیقت پر خوش ہیں کہ ان کا ایک شاندار کنبہ ہے اور ایک پیار کرنے والا شوہر ، وہیں اس حقیقت سے رنجیدہ بھی ہوتی ہیں کہ انہیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سائرہ نے کہا کہ میرا مطلب ہے، مجھے اس کی توقع نہیں تھی، ہم تعلیم یافتہ ہیں، میں نے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں شادی کی، تو سوچیں کہ یہ رجعت پسند انداز میرے لیے کتنا حیران کن ہوگا۔ سب سے پہلے تو دوبارہ کوشش کرنے کا جملہ سننے کو ملا. یہ سمجھ سے بالاتر تھا، لیکن یہ میرے سسرال کے دوستوں، میرے والدین کے دوستوں اور یہاں تک کہ میرے کچھ قریبی جاننے والوں کی جانب سے بھی یہ جملہ سنے کو ملا تھا۔ مجھے تین خوبصورت بیٹیوں سے نوازا گیا ہے، لیکن لوگ نہیں جانتے کہ انہیں کب اپنا منہ بند کرلینا چاہئے، اب وہ اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ میں اپنی بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہوں۔ یہاں تک کہ میرے شوہر کے بہت اچھے دوست نے اس سے کہا کہ وہ لڑکا پیدا کرنے کے لیے ’دوسری شادی کر لیں‘۔ میں نے اپنے حمل کے دوران انسانوں کا بدترین پہلو دیکھا ہے، میری خواہش ہے کہ لوگوں میں کچھ احساس پیدا ہوجائے۔
سائرہ ان بہت سے خواتین میں سے ایک ہیں جو بنیادی طور پر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ انہیں شوہر کی صورت میں ایک ایسے شخص کی پشت پناہی حاصل رہی جو ان کی حمایت کر سکتا تھا۔تاہم دیگر خواتین اتنی خوش قسمت نہیں ہیں، کیونکہ زیادہ تر معاملات میں بدسلوکی شوہر کی جانب سے ہی شروع ہوتی ہے۔ کلثوم نے اس صورتحال کا سامنا کیا،جسے اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب سمجھا جا سکتا ہے۔ محض 16 سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی، اس نے اپنا خاندان شروع کرنے کے لیے’حوصلہ افزائی‘ کی، اس کا شوہر اس کا فرسٹ کزن تھا۔ ان کے درمیان عمر کے 14 سال کے فرق نے آپس میں کھل کر بات کرنا مشکل بنا دیا۔ 17 سال کی عمر میں اس نے اپنی پہلی لڑکی کو جنم دیا۔ یہ اس کے شوہر یا اس کے سسرال اور دور کے رشتہ داروں کو اچھا نہیں لگا۔ وہ ’گفتگو‘ اور طعنوں کا موضوع بن گئی، اس کی بیٹی کا مذاق اڑایا گیا اور ان سے انصاف نہیں کیا گیا۔ 19 سال کی عمر میں اس نے دوسری بیٹی کو جنم دیا اور طنز میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جن لوگوں نے شروع میں صرف گھٹیا ریمارکس دیے تھے،اب انہوں نے کھل کر اس پر تنقید کی۔ 21 سال کی عمر میں وہ تیسری بار ماں بنی، اس بار ان کا پورا سوشل نیٹ ورک ان کے خلاف ہو گیا۔ اس کا قصور؟ ایک اور لڑکی کو جنم دینا۔ شوہر نے اسے انسان سے کم تر سمجھ لیا۔ اس کے سسرال والوں نے شوہر کی پیروی کی۔وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ تین بیٹیوں کے ساتھ وہ بالکل اکیلی تھی۔
دنیا والوں کے لیے یہ ایک خوشحال خاندان تھا۔لیکن خاندان کے تانے بانے کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔ ایک دن اسے پتہ چلا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے۔ جب اس کا علم ہوا تو شوہر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ اس کی دوسری شادی ’ضروری‘ تھی، کیونکہ وہ ایک مرد ’وارث‘ چاہتا تھا۔تاہم، اس کی دوسری شادی سے اس کی کوئی اولاد نہیں ہوئی،اور یہ طلاق پر منتج ہوئی، لیکن شوہر نے اس سے سبق نہیں سیکھا، اس نے دوبارہ شادی کی، اس بار اس کی جڑواں لڑکیاں پیدا ہوئیں۔اتنا عرصہ جدوجہد کرنے کے بعد کلثوم نے ہار مان لی۔ اس نے اپنی قسمت کو قبول کر لیا ہے کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں کو ان کی اپنی زندگی کے اگلے مرحلے کے لیے تیار کررہی ہے۔
خلثوم نے کہا کہ عورت کا مقام اس کے شوہر کے گھر میں ہے، میں اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتی اگر اللہ نے مجھے تین بیٹیاں دی ہیں، میں ایک اچھی بیوی تھی، لیکن میں کیا کرتی؟ مجھے امید ہے کہ میری بیٹیاں جلد آباد ہو جائیں گی، میں بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کے حق میں نہیں ہوں، اس کا کیا فائدہ؟ میرا بیٹا ہوتا تو یقیناً اسے اعلیٰ تعلیم دلاتی، لیکن بیٹیوں کی تو شادی ہو جائے گی۔انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ خاندان کیسے چلانا ہے اور کیسےسمجھوتہ کرنا ہے۔ کلثوم سمجھتی ہیں کہ ان کا قصور تھا۔وہ اس حقیقت کے خلاف نظر آتی ہے کہ ان کی تین بیٹیاں ہیں۔وہ اکیلی ایسا نہیں سوچتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہیں، زیادہ تر خواتین نے بچپن میں ایسے ہی سلوک کا سامنا کیا ہے۔ جوکہ ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔
جس کی خوشی منائی چاہیے تھی، اسے عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وہ رحم جس سے بچے پیدا ہوتے ہیں، اکثر خواتین کو انہیں جنم دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ خواتین ہر طرح سے مرد کو ’خوش‘ کرنے کی ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں اور اس طرح شیطانی چکر جاری رہتا ہے۔ ماں جو اس سب کا خمیازہ بھگتتی ہے وہ بدترین نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر افشاں ایمن دھامجی کے مطابق ایشیائی معاشرے میں لڑکی کا پیدا ہونا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ میں نے ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں جہاں سسرال والے انتقام میں بیوی کو شوہر کے ساتھ بیڈ روم شیئر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ وہ بیٹی کے ساتھ گھر میں الگ کمرے یا جگہ پر رہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید دور میں کیا لوگ اب بھی ایسی رجعت پسند ذہنیت رکے حامل ہیں اور اگر ہیں تو کیا یہ معاشرے کے کسی خاص سماجی و اقتصادی طبقے میں پائی جاتی ہے؟
وہ اس کی خود اعتمادی کو ختم کر دیتے ہیں، اس طرح اس کی عزت نفس کو تباہ کر دیتے ہیں، جو بعد میں بیٹی کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اگر عورت کم آمدنی والے پس منظر سے آتی ہے اور اس کی شادی معاشی طور پر مضبوط خاندان میں ہوتی ہے، تو جذباتی طور پر اسے زیادہ دبایا جاتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو عورتوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا جاتا ہے؟ ڈاکٹر قدسیہ طارق کے مطابق اس کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ خواتین کو جائیداد کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جو دوسرے گھر جائے گی۔ لہٰذا یہ معاشی طور پر ممکن نہیں ہے کہ لڑکیاں پیدا ہوں کیونکہ ان کی شادی کر دی جائے گی، اسے جہیز بھی دیا جائے گا، لیکن وہ جائیداد میں اس کے حق وراثت سے محروم رہے گی۔
جب معاشیات خاندانی ڈھانچے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، تو معقولیت عام طور پر پس پشت چلی جاتی ہے۔ رجعت پسندانہ ذہنیت تمام سماجی و اقتصادی طبقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ بدسلوکی اس وقت زیادہ تکلیف دیتی ہے جب یہ مظلوم کو بدسلوکی کرنے والا بنا دیتی ہے۔
خاتون پہلے سے ہی اس خیال سے پریشان ہوتی ہے کہ وہ بچہ پیدا کر رہی ہے، وہ خود کو کمزور سمجھتی ہے، معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ پدرانہ اصولوں کے مطابق رہنا سکھایا جاتا ہے، اور اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ عورت کو اپنے شوہر کو ایک لڑکا دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے وہ زندگی میں ایک اعلی مقام حاصل کرے گی. بدقسمتی سےجب وہ لڑکا پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے، اس کی اپنی سوچ بھی اس کے خلاف ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کا یہ عقیدہ کافی مضبوط ہے۔ اس سے ماں بیٹی کے خلاف ہو سکتی ہے، بیٹی کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرتی ہے، تناؤ اور مایوسی بہت زیادہ ہوتی ہے، اور طبی لحاظ سے اس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اگر ماں بچے کو بار بار مارتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے کو نظم و ضبط سکھارہی ہے۔جبکہ ایک بہت ہی عام سینڈروم ہے جسے ’شیکن بیبی سنڈروم‘ کہا جاتا ہے جہاں بچے کو ہلا کر بچے کو خاموش کرایا جاتا ہے، اس کی وجہ سے بہت سی اموات واقع ہوئی ہیں۔ کچھ خواتین میں نفسیاتی اذیت کی وجہ سے ڈپریشن، پی ٹی ایس ڈی، او سی ڈی پیدا ہوجاتا ہے، بدقسمتی سے اس پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔
جب کوئی سوچتا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کو کس طرح طعنہ دے سکتی ہے، تو اسے قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ برسوں سے ‘کم تر’ سمجھے جانے کا پرتو ہے، اس حد تک کہ یہ ایک وسیع پیمانے پر قبول شدہ معمول بن چکا ہے۔ جو چیز معمول نہیں ہے وہ ایک عورت ہے جو اپنے بچے کے حقوق، جینے کے حق، تعلیم کے حق اور سب سے اہم ’ہونے‘ کے حق کے لیے کھڑی ہو کر لڑتی ہے۔ ایسی عورت کو اکثریت کی جانب سے ’غیرروایتی‘ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، غیرروایتی عوتوں کے پاس تاریخ کا دھارا بدلنے کا عزم ہوتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News