
ای سی پی نے یہ اعلان سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا جس میں 15 دن کے اندر انتخابی شیڈول اور 60 دن کے اندر اندر انتخابات کرانے کی ہدایت کی گئی
سندھ کی قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے بارے میں ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو ماضی میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث تین مواقعوں پر ملتوی کر دیے گئے تھے۔ تاہم، اب بلدیاتی انتخابات کی تاریخ 15 جنوری مقرر کر دی گئی ہے۔ یہ انتخابات صوبہ سندھ کے دو انتظامی ڈویژنز یعنی کراچی اور حیدرآباد میں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے یہ اعلان 18 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد کیا جس میں ای سی پی کو 15 دن کے اندر انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے اور 60 دن کے اندر اندر انتخابات کرانے کی ہدایت کی گئی۔ اس کے بعد ای سی پی نے صوبہ سندھ کے اعلیٰ انتظامی اور پولیس حکام کو انتخابی ڈیوٹی کے لیے مناسب تعداد میں سیکیورٹی اہلکار اور پولنگ عملہ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیکیورٹی اہلکاروں کی دست یابی کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
اس پیش رفت پر مختلف سیاسی جماعتوں نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اس وقت ملک کے غیر مستحکم سیاسی منظر نامے کے پیش نظر اس شیڈول سے مطمئن نہیں ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جو صوبے میں برسراقتدار ہے اور جماعت اسلامی (جے آئی) نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
بول نیوز نے اس معاملے پر مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے بات کی۔ ان کے جوابات درج ذیل ہیں۔
فردوس شمیم نقوی
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کے فوری بعد سندھ حکومت کے ایک وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک جماعت کے متعدد کارکنان پی پی پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس بیان کا مقصد ووٹروں اور امیدواروں کی خرید و فروخت کو متحرک کرنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک متنازع الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کو تین بار ملتوی کیا اور چونکہ وہ عدالتی احکامات کے پیش نظر انہیں مزید ملتوی نہیں کر سکتا، اس لیے وہ انہیں منصفانہ اور شفاف نہیں ہونے دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ای سی پی سندھ میں پی پی پی کی بی ٹیم ہے۔ تیسرا یہ کہ ایک امیدوار انتخابی مہم پر 50 سے 60 لاکھ کے درمیان خرچ کرتا ہے۔ تینوں التوا کو دیکھتے ہوئے زیادہ تر سیدھے اور ایماندار امیدواروں کے پاس پیسہ ختم ہوگیا ہوگا جس سے ناجائز دولت رکھنے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اگر یہ امیدوار جیت جاتے ہیں تو وہ صرف اپنے خزانے کو بھرنے کے لیے زیادہ پیسہ کمانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔
میں نے ان خدشات کو اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھا۔ 15 جنوری تک سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے اگر میں مزید خدشات کا اظہار کروں گا تو مجھ پر یہ الزامات لگائے جائیں گے کہ میں انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنا چاہ رہا ہوں، جو میں نہیں کروں گا کیوں کہ ہر الیکشن میری جماعت کے لیے ریفرنڈم ہوتا ہے۔
محمد ریحان ہاشمی
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ہمیشہ وقت پر انتخابات کا مطالبہ کرتی ہے اور تاخیر کی مخالف ہے لیکن اس مرتبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ انتخابات تین ماہ کے اندر کرائے جانے چاہیے تھے لیکن ای سی پی دو سال سے غیر فعال (ہائبرنیشن میں) ہے اور ایم کیو ایم پی کے ایک بھی مطالبے پر عمل نہیں کیا۔ کراچی میں حلقہ بندیوں کی نئی حد بندی نہیں کی گئی اور انتظامی اور مالیاتی ذمہ داریوں سے متعلق سندھ لوکل گورنمنٹ کے قوانین کو ہموار نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے آنے والے میئر اگلے چار سال تک بے اختیار رہیں گے۔ یوں تو موجودہ انتخابات ایک فضول مشق ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ مطالبات بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے پہلے پورے کرنے چاہئیں۔ انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ منتخب نمائندے اپنے ووٹروں کی صحیح طریقے سے خدمت کر سکیں۔ حلقہ بندیوں کی غلط حد بندی اور قانون میں تاخیری ترمیم انتخابات سے قبل دھاندلی کے مترادف ہے۔
محمد حسین محنتی
جماعت اسلامی سندھ کے سربراہ
یہ واقعی افسوس ناک ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابات کو تین بار ملتوی کیا۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک کبھی بھی وقت پر انتخابات کرانے میں ناکام نہیں ہوتے، چاہے وہاں جنگ جاری ہو، یا دہشت گرد حملے ہوں، یا کوویڈ 19 جیسی وبا پھیل جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان پی پی پی کی حکومت کے ساتھ ہے اور آگے بڑھنے اور شفاف انتخابات کرانے کے بجائے اس کے حکم کی تعمیل کر رہا ہے۔ اگر وہ الیکشن کے انتظامات نہیں کر سکتا تو اس کا عملہ تمام سرکاری سہولیات سے لطف اندوز کیوں ہوتا ہے؟ سندھ ترقی کے لحاظ سے پنجاب اور دیگر صوبوں سے پیچھے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی زیرقیادت سندھ حکومت 1970ء سے اقتدار کی مراعات سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔
حافظ نعیم الرحمن
جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ
جماعت اسلامی نے جلد از جلد انتخابات کرانے کی ضرورت پر زور دیا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انہیں اس بنیاد پر ملتوی کیا کہ سندھ حکومت پولنگ کے دن خاطر خواہ سیکیورٹی عملہ تعینات نہیں کر سکی۔ میرے خیال میں اس غفلت پر سندھ حکومت کے متعلقہ افسران کو فوری طور پر برطرف کیا جانا چاہیے۔
اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز کے ارد گرد فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ ضروری ہے، کیوں کہ سندھ پولیس پیپلز پارٹی حکومت کی بی ٹیم ہے۔
یہاں تک کہ پی ٹی آئی بھی پہلے الیکشن میں تاخیر پر خوش تھی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اب بھی الیکشن میں جانے سے گریزاں ہیں۔ صرف جماعت اسلامی کراچی والوں اور حیدرآباد ڈویژن کے لوگوں کے حقوق مانگ رہی ہے کہ انتخابات کے ذریعے ان کا تحفظ کیا جائے۔
سینیٹر تاج حیدر
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما
اس وقت سندھ پولیس سیلاب زدہ علاقوں میں ڈاکوؤں کو قابو کرنے اور اسلام آباد میں سیاسی بحران کی وجہ سے امن و امان برقرار رکھنے میں مصروف ہے لیکن جنوری میں واپس آجائے گی۔ سیلاب کا پانی بھی تب تک نکل چکا ہو گا۔ سندھ حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔
سندھ حکومت پہلے ہی انتخابات کے لیے تیار تھی لیکن پولیس کی افرادی قوت کی کمی کے باعث وہ مرحلہ وار انتخابات کروانا چاہتی تھی چنانچہ حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کہا کہ وہ اسے غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے تین ماہ کا وقت دیدے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس انتخابات کرانے کے اختیارات ہیں لیکن یہ حکومت کو ہی بہت بڑا مشق کرنا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News