Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ووٹ دیں یا نا دیں؟

Now Reading:

ووٹ دیں یا نا دیں؟

 کراچی کے عوام نے انتخابات میں حصہ نہ لے کر خاموش احتجاج کیا

 پی ڈی ایم کے 13 جماعتی اتحاد کی جانب سے ’عدم اعتماد‘ کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد سے پورے سال سیاسی میدان میں صرف انتخابات زیر بحث رہے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے مطالبے کے لیے عمران خان سڑکوں پر نکلے، جو معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔

درحقیقت زمینی حقائق تاریک نظر آتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا کہ ملک کو اس کے سنگین سیاسی اور معاشی بحران سے کیسے نکالا جائے۔

سیاسی محاذ آرائی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ کم از کم حکومت اور ادارے بشمول الیکشن کمیشن آف پاکستان آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ ہوں گے۔ تاہم،یہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisement

گزشتہ سال 24 جولائی کو ہونے والے شہری سندھ میں انتہائی متوقع بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر 15 جنوری کو ان کا انعقاد ہوا اور آخری لمحات پر ایم کیو ایم پاکستان نے ان کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔

تاہم، سیاسی جماعتوں نے رائے دہندگان کی غیر معمولی کم حاضری کو اہمیت نہیں دی، جہاں کم از کم 50ہزار ووٹ ڈالے جانے کی توقع تھی، صرف 500 ووٹ ڈالے گئے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی ایک رپورٹ کے مطابق بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹھہ اور ملیر کے اضلاع میں عوام کی ایک متاثر کن تعداد بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔ لیکن ملک کے اقتصادی مرکز میں ووٹ دالنے کی شرح انتہائی کم رہی۔

کیا وجہ تھی کہ عوام  ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نہیں نکلے؟

اس بابت ایک وکیل امان اللہ کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی بلدیاتی انتخابات میں ووٹ نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ ’’میں کراچی کا باسی ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس شہر کو کن مسائل کا سامنا ہے، اور ان نام نہاد منتخب میئرز کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ کیا آپ نے کوئی بہتری دیکھی؟ ٹاک شوز میں آنا اور جو کچھ آپ نے کیا اس پر شیخی بگھارنے کی حد تک ٹھیک ہے، لیکن کیا آپ نے کراچی میں کہیں بھی کوئی بہتری دیکھی؟ تو کیوں ووٹ دیں؟ عوام یہ سوچ کرخودکو صرف دھوکہ دے رہے ہیں کہ ان کے ووٹ کی اہمیت ہے۔ ایسا قطعی نہیں ہے۔ نام نہاد منتخب عہدیداروں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ کتنی رقم جیب میں ڈال سکتے ہیں۔

امان اللہ کے سخت الفاظ ایک سنگین مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہیں،اور وہ مسئلہ جسے کوئی سیاسی جماعت توجہ نہیں دے رہی۔ کراچی کے عوام چاہتے ہیں کہ کراچی کے مسائل حل ہوں، لیکن انفراسٹرکچر کی تباہی ہو یا بنیادی سہولیات کے مسائل کوئی میئر مسائل حل نہیں کرسکا جس کے نتیجے میں کراچی کے شہری اب سیاسی طور پر لاتعلق ہوچکے ہیں۔

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری کا کہنا ہے کہ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا شہر سے کوئی مفاد وابستہ ہے۔‘‘

Advertisement

انہوں نے کہا کہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ووٹ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ کسی معجزے کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک تو پورے پاکستان سے یا بھارت، افغانستان یا یہاں تک کہ برما جیسے ممالک سے آنے والے مہاجرین ہیں۔ ان میں مجھے احساسِ ملکیت نظر نہیں آتا۔ ماضی تقسیم سے قبل پارسیوں اور عیسائیوں جیسی برادریوں نے اس شہر کی ملکیت سنبھال لی، اور اس کے نتیجے میں شہر نے ترقی کی۔ اب شہر کی زمینوں پر قبضہ ہورہا ہے۔ اگر آپ قبضہ کی گئی زمین پر جائیداد بناتے ہیں تو آپ کیوں پریشان ہوں گے کہ شہر کا کیا ہوگا؟

نذیر لغاری نے نشاندہی کی کہ زیادہ تر پارکوں پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں اور شہر بھر میں کچی آبادیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ’’کراچی وسیع و عریض اراضی پر پھیلا ہواشہر ہے، اور یہ ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں ہجرت کرکے آنے والے افراد کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔ اب تمام علاقوں میں کچی آبادیاں دیکھی جا سکتی ہیں،تجاوزات عروج پر ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘‘

کاروباری شخص نعیم شہر کے تیز رفتاری سے پھیلاؤ کو ایک مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’میں گزشتہ 30 سال سے ووٹ نہیں دے رہا۔ شہر اب کچرے کا ڈھیر لگتا ہے، جب آپ حکام سے تجاوزات اور غیر قانونی دکانوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کیا وسیم اختر یا ہمارے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی؟ نہیں، کوئی ان کو ووٹ دینے میں وقت کیوں ضائع کرے گا؟ حالیہ بلدیاتی انتخابات دیکھ لیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ 20 فیصد لوگ بھی آئے؟ مجھے اس پر بھی شک ہے۔‘‘

سابق سفیر ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں لوگ بلدیاتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی سے واقف ہیں، جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔ یہ عام انتخابات کی بنیاد ہے۔ سچ پوچھیں تو تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے کراچی پر توجہ نہ دینا عوام میں سیاسی لاتعلقی کا ایک بڑا سبب ہے۔ پیپلز پارٹی نے کیا کیا؟ وہ اتنے عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ یہ بنیادی وجہ ہے کہ شہریوں کا ان پر اعتماد ختم ہو گیا ہے، خاص طور پر جب بات بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ہو۔ اور جب کوئی سیاسی جماعت آخری لمحات میں پیچھے ہٹ جاتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ ان کی جیت ہے، تو یہ سنجیدگی کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ صرف جماعت اسلامی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی، دیگرکسی جماعت نے اس کی زحمت نہیں کی، چنانچہ عوام نے ووٹ نہ دے کر ان سے انکار کیا۔

یاد رہے کہ کراچی میں 2015ء کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 36 فیصد رہا۔ اس بار یہ 20 فیصد سے بھی کم تھا۔

ایک صنعت کار نے نام افشاء نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ووٹنگ میں حصہ نہ لینا بہتر ہے کیونکہ سارا نظام دھاندلی زدہ ہے، میں نے یونین کونسلرز یا میئرز کو کام کرتے نہیں دیکھا۔ میں نے ان سب کو اقتدار میں دیکھا ہے۔ وہ خود کراچی کے مسائل سے لاتعلق ہیں۔

Advertisement

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار مجاہد بریلوی کا خیال ہے کہ چونکہ انتخابات میں متعدد بار تاخیر ہوئی اس لیے سیاسی جماعتیں اپنی رفتار کھو بیٹھیں۔ اگر آپ بلدیاتی انتخابات کو دیکھیں تو سندھ حکومت نے پوری کوشش کی کہ انتخابات نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات گلی محلوں کے لیے ہیں اور یونین کونسلرز اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔تاہم کوئی سیاسی مہم نہیں چلائی گئی۔کوئی ووٹ مانگنے لوگوں کے گھروں میں نہیں گیا۔‘‘

مجاہدبریلوی نے کہا کہ ایم کیو ایم پی کا بائیکاٹ بے تکا تھا۔ اس نے حد بندیوں کے بارے میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور آخری لمحات میں بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں بائیکاٹ کی سیاست نہ کریں۔ پیپلز پارٹی نے یہ کام 1985ء میں کیا اور وہ آج تک پچھتا رہے ہیں۔ انتخابات عوام کی خدمت اور سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ عوام سیاست سے لاتعلق ہو گئے ہیں لیکن میرا استدلال یہ ہے کہ اگر انتخابات نہیں ہوتے تو اس کا حل کیا ہے؟

ایک استاد کریم نے کہا کہ ووٹنگ سے گریز کو سیاسی احتجاج کی شکل دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ان ووٹرز کے لیے خالی کالم بنائے جو کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔انہوں نے کہا کہ ’’جب ہمارے پاس ایسا بیلٹ پیپر آئے گا، تب ہی ہم ووٹ ڈالیں گے۔‘‘

ساؤتھ ایشیا میگزین کے چیف ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ کار سید جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں یہ سیاسی قیادت پر عوام کا عدم اعتماد ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’سیاست دانوں کی کارکردگی بہت بری ہے، خاص طور پر جب بات کراچی کی ہو۔ عوام ان (سیاست دانوں) سے مایوس ہوچکے ہیں، اور کم ٹرن آؤٹ کی یہ بڑی وجہ ہے۔ کراچی کے عوام کا موجودہ سیاسی منظرناموں اور سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے، جب تک وہ (سیاسی جماعتیں) تبدیل نہیں ہوں گی، لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ عوام کی مایوسی واضح ہے۔ یہ وہ عوام نہیں جو سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں یا ٹریفک بلاک کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زیادہ تر تعلیم یافتہ، محنتی اور یہاں تک کہ اعلیٰ درجے کے پیشہ ور افراد ہیں۔ وہ شہر کا درد محسوس کرتے ہیں اور انہوں نے ووٹ نہ دے کر اپنی آواز بلند کی ہے۔ ان کے لیے یہ احتجاج کا ایک طریقہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور 21ویں صدی کے پاکستان سے جڑنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان کے بغیر بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پنجاب اور سندھ میں سیاسی محاذ آرائی، صدر زرداری متحرک، وزیر داخلہ طلب
وزیر اعظم کے ملائیشیا سے واپس آنے کے بعد معاملات طے ہو جائیں گے، خواجہ آصف
وزیر داخلہ سندھ سے محسن نقوی اور شرجیل میمن کی تعزیتی ملاقات
امریکا بگرام ایئربیس کی واپسی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، ذبیح اللہ مجاہد
شکتی سائیکلون کے اثرات، کوئٹہ میں گرد و غبار کا طوفان، حدِ نگاہ صفر کے قریب
کراچی میں جرائم بے قابو، 9 ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 50 ہزار کے قریب پہنچ گئیں
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر