
چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بنچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ اور دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم نے ملاقات کی درخواست دائر کی ہے وہ سن لیں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج تو سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ ہو جائے گا تو امید رکھیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف پرائیویٹ کمپلینٹ ہے، ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا، یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن کا بھارتی عدالت کے متعلقہ فیصلے کا حوالہ
وکیل امجد پرویز نے بھارتی عدالت کے متعلقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی کو ایک پرائیویٹ کمپلینٹ میں دو سال کی سزا ہوئی، انہوں نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی، عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ ضابطہ فوجداری میں سزا معطلی کی درخواست میں شکایت کنندہ کو فریق بنانے کا ذکر نہیں، استدعا ہے کہ عدالت درخواست میں ریاست کو نوٹس جاری کرے اور موقف سنے بغیر سماعت آگے نہ بڑھائی جائے۔
امجد پرویز نے کہا کہ میں نے عدالت کو مطمئن کرنے کیلئے پاکستانی اور غیرملکی عدالتوں کے حوالے پیش کیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے کیسز میں تو ریاست اور شکایت کنندہ کو نوٹس جاری نہیں کیا جاتا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے کہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹرز طے شدہ ہیں اور عدالت انہیں ہی سنتی ہے، مختصر سزا معطلی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں بلکہ عدالت کا اختیار ہے، یہ ملک کے سابق وزیراعظم کے خلاف کرپٹ پریکٹیسز کا سنگین کیس ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہی کہ اگر یہ غلطی ہے بھی تو وہ ٹرائل کو خراب نہیں کریگی؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے، کوئی ایک ایسا فیصلہ موجود نہیں جہاں کرپٹ پریکٹیسز کی شکایت مجسٹریٹ کے پاس دائر ہوئی ہو۔”
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی کے دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں دو تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے دو گھنٹے گزشتہ سماعت پر لے لئے گھنٹہ آج لے لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس کھوسہ نے کہا تھا کہ ٹیسٹ میچ کا زمانہ چلا گیا اب ٹونٹی ٹونٹی کا دور ہے، لطیف کھوسہ صاحب نے بڑے شائستہ انداز میں کہا ہے کہ مختصر کریں۔
دوران سماعت امجد پرویز نے کہا کہ لطیف کھوسہ نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیلئے تین دن لئے، انہوں نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نہیں، چھوڑ دیں اُس طرف نہ جائیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انہوں نے چھ نکات اٹھائے میں نے انکا جواب دینا ہے، انہوں نے بیانیہ بنا دیا ہے کہ یہ کوئی پہلا کیس ہے جس میں ملزم کو حقِ دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کیلئے اجازت نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، درحقیقت سیکرٹری کمیشن نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ہی شکایت دائر کرنے کی اجازت دی، الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آفس کو شکایت دائر کرنے کا کہا کسی مخصوص شخص کو نہیں، آپکی دلیل اپنی جگہ لیکن سیکرٹری کمیشن نے خود کو متعلقہ شخص کیسے سمجھا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے اپنے فیصلے میں متفقہ طور پر اجازت دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اگر سیکرٹری کمیشن کو ڈائریکشن دیتا تو وہ بات الگ تھی، یہاں الیکشن کمیشن نے سیکرٹری کی بجائے آفس کو یہ ہدایت دی ہے۔
چیف جسٹس کا وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے یہ تمام دستاویزات ریکارڈ کے ساتھ لف کئے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ یہ دستاویزات لف کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ ایسا کیس نہیں کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آفس کو آرڈر کیا، کیا سیکرٹری کے علاوہ کوئی اور بھی کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟ کیا الیکشن کمیشن کا ڈی جی لاء بھی یہ کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا ایڈمنسٹریٹو سربراہ ہوتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ایڈمنسٹریٹو معاملات رجسٹرار چلاتا ہے، چیف جسٹس کیا رجسٹرار کو کوئی کارروائی کرنے کا کہے گا یا آفس کو؟ جس پر وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس رجسٹرار کو کہیں یا آفس کو دونوں ہی درست ہونگے۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ اب مزید کِس نکتے پر دلائل باقی ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ حقِ دفاع اور چار ماہ میں کمپلینٹ دائر کرنے کے نکات پر دلائل دینے ہیں، واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی، میں بتاؤں گا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی نہیں کی۔
امجد پرویز نے کہا کہ ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ ملزم کے وکیل عدالت میں پیش ہو کر دلائل دینگے، میرے دلائل آج مکمل نہ ہو پانے کی ایک وجہ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات پبلک دستاویز ہوتا ہے؟ وکیل نے کہا کہ کچھ کیسز میں گواہوں کی فہرست پر اعتراض نہیں اٹھایا جاتا، اگر اعتراض آ جائے تو پھر عدالت نے اس اعتراض پر پہلے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، تاہم کیس کا فیصلہ کل گیارہ بجے سنایا جائے گا۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فالو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News