
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات میں ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ لینے والے افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کم کرکے 1 فیصد کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے بجٹ میں مجوزہ ٹیکس سلیب پر نظرِ ثانی کی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر وفاقی بجٹ 2025-26 میں سالانہ 6 سے 12 لاکھ روپے آمدن والے افراد پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس تجویز کیا گیا تھا تاہم اب اسے کم کرکے 1 فیصد مقرر کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال میں اس آمدنی سلیب پر 5 فیصد انکم ٹیکس عائد ہے۔
پینشن پر ٹیکس: ایک کروڑ روپے سالانہ سے زائد پر 5 فیصد ٹیکس عائد
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایک اور اہم پیش رفت سامنے آئی، جہاں سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن لینے والے افراد پر 5 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی گئی۔
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ایک کروڑ روپے تک سالانہ پینشن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا تاہم اس حد سے تجاوز کرنے پر ٹیکس لاگو ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ پارلیمانی عہدیداروں کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس
کمیٹی کے چیئرمین سید نوید قمر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں بعض اراکین نے اعتراض اٹھایا کہ ساڑھے 8 لاکھ روپے ماہانہ پنشن لینے والوں کو بھی ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔
کمیٹی رکن محمد جاوید نے کہا کہ ایف بی آر تو ایک لاکھ کی پینشن پر بھی ٹیکس لگانا چاہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ججز کے علاوہ کسی کی پینشن ایک کروڑ سے زائد نہیں۔
ٹیکس نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی کی تیاری
اجلاس میں ٹیکس نادہندگان سے ریکوری کے لیے قانونی شق پر بھی تفصیلی بحث ہوئی۔ ایف بی آر حکام نے تجویز دی کہ اگر کسی کیس میں ایف بی آر تین فورمز اسیسمنٹ، اپیلیٹ فورم اور ہائی کورٹ پر جیت جاتا ہے تو ادارے کو فوری طور پر ریکوری کا اختیار دیا جائے۔
اس ضمن میں بینک اکاؤنٹس فریز کرنا، گرفتاری اور براہ راست ریکوری جیسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
کمیٹی چیئرمین نوید قمر نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ختم نہیں کر سکتے لیکن تین بار ہارنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص ٹیکس دینے کو تیار نہ ہو تو یہ افسوسناک ہے۔ بلال اظہر کیانی نے بھی اتفاق کیا کہ ایسا شخص نظام کے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ مجوزہ قانون کو مزید بہتر بنا کر اگلے روز دوبارہ پیش کیا جائے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News