
افسران کے عہدوں کیساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق پچھلے عدالتی حکمنامے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں تسلیم کیا کہ قانون میں خامیاں ہیں، انہوں نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیساتھ قانون ہم آہنگ کرنے کا کہا اور قانون میں ترمیم کیلئے عدالت سے وقت مانگا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بجٹ اور عید کی چھٹیوں کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا، اٹارنی جنرل کی وقت دینے کی استدعا عدالت نے منظور کی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موجودہ حکومت چاہتی ہے اس حوالے سے معلوم نہیں، کیا حکومت چاہتی ہے معطل شدہ قانون پر عمل کرکے عدالتی کام روک دیا جائے؟ دوسری صورت میں عدالت اپنا کام جاری رکھے اور نئی پارلیمان قانون میں ترمیم کا جائزہ لے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مناسب ہوگا کہ عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا فیصلہ پہلے کر دے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر فیصلے تک فل کورٹ نیب ترامیم کیس پر سماعت کرے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ معطل شدہ قانون پر عملدرآمد کیسے ممکن ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق پہلے سے جاری مقدمات پر نہیں ہوتا، قوانین کا ماضی سے اطلاق ہمیشہ حالات سے مشروط ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے ذریعے آئین کی بنیاد ہلا دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے بات نیب ترامیم کیس آٹھ رکنی بنچ کی جانب جا رہی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر رائے نہیں دینا چاہتا، میرا خیال ہے کہ نیب ترامیم کیس کو آگے بڑھایا جائے، مخدوم علی خان کا پہلے ہی شکوہ ہے انہیں خواجہ حارث سے کم وقت ملا۔
خواجہ حارث نے اپنے موقف میں کہا کہ حکومت کی جانب سے رواں سال بھی نیب قانون میں دو ترامیم کی گئی ہیں، پہلے 2023 کا ایکٹ آیا پھر آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی گئی، رواں سال ہونے والی ترامیم بھی چیلنج کر رکھی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا رواں سال ہونے والی ترامیم سے گزشتہ سال کی ترامیم پر فرق پڑا ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ سیکشن چار میں کچھ ترامیم ہیں جو براہ راست متاثر ہوئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کا سلسلہ یہاں رکنے والا نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم تو نیٹ فلکس کی سیریز ہی بنتی جا رہی ہیں، پہلے سیزن ون آیا پھر ترامیم کا سیزن ٹو آیا پھر رواں سال سیزن تھری آ گیا۔
مخدوم علی خان نے اپنے موقف میں کہا کہ نیب ترامیم کیس بھی ای او بی آئی کیس بنتا جا رہا ہے، ای او بی آئی کرپشن کیس میں 65 سماعتیں ہوچکی ہیں اور سات چیف جسٹس مقدمہ سن چکے ہیں، ای او بی آئی کیس میں سات مرتبہ وکیل بھی تبدیل ہوچکے اور مقدمہ اب بھی چل رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم کا مرکزی ڈھانچہ گزشتہ سال سامنے آیا، گرمیوں کی چھٹیوں کے باوجود یہ بینچ تشکیل دیا گیا، گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بینچ تشکیل دینا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے تحریری جواب سے اختیارات کےامین ہونےکا تاثر ملا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے خیانت کو اپنے دلائل کا مرکزی نکتہ بنایا ہے، اختیارات کے امین کے تصور پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ بھی موجود ہے، عدالتی فیصلے میں خیانت کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 9، 25 اور 24 کے اصول سے جوڑا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سے کچھ لوگوں کو خصوصی رعایت دی گئی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کا یہ بھی موقف ہے کہ نیب ترامیم سے قانون کی کچھ شقیں ہی ختم کر دی گئیں، سول سرونٹ سمجھتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں ہی باندھ دیئے گئے ہیں، اسی لئے تو سول سرونٹس پھر کمیٹیاں بناتے ہیں معاملات کمیٹی کو بھیج دیتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے اپنے موقف میں کہا کہ کسی ملک کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں ملا جس میں کوئی قانون صرف اس بنیاد پر کالعدم قرار دیا گیا ہو کہ اس سے سزا میں کمی کی گئی تھی، اگر نیب کسی کو حراست میں رکھے، ریفرنس دائر نہ کرے یا 90 روز تک ملزم کی ضمانت نہ ہو اس سے اختیارات کے امانت دار کی توثیق کیسے ہوتی ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قانون میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے اس میں امانت کہاں سے آگئی؟ پارلیمنٹ قانون ختم بھی کر سکتی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں سزائے موت ختم کی گئی تو اعتراضات ضرور کیے گئے لیکن یہ نہیں کہا گیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جیسے نیٹ فلکس کے سیزنز ہوتے ہیں، سیزن وی، ٹو، تھری، آپ جس ترمیم کی بات کر رہے ہیں وہ غالباً سیزن تھری سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں صرف بنیادی اصولوں کو دیکھنا ہے، ہم 2023 کی نیب قانون میں ترامیم کی طرف نہیں جائیں گے۔
مخدوم علی کی جانب سے عدالت کے سامنے خلافت عثمانیہ اسلامی قوانین اور تاریخی کتب کے حوالے دیے گئے اور انہوں نے کہا کہ ہاشم کمالی کی ایک کتاب کا حوالہ بھی پیش کروں گا۔
جسٹس منصور شاہ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ آپ نے یہ کتاب سم شاپنگ سے خریدی یا کہاں سے منگوائی تھی، جس پر وکیل نے کہا کہ برسوں پہلے میں نے یہ کتاب ایمازون سے منگوائی تھی۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ میں ایمازون پر اس کتاب کو ڈھونڈ لوں گا، مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے قانون بھی سلطان بناتا تھا اور قاضی کی تعنیاتی بھی سلطان کرتا تھا، اب ویسا سلطنت والا تصور موجود نہیں قانون ساز پر اعتبار کرنا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی تجویز دی جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فالو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News