
تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟ کیا پارلیمنٹ خود پر حملہ توہین نہیں سمجھتی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ اور رولز میں فیئر ٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ ملٹری ٹرائل کیس کے کس فیصلہ سے اتفاق کرتے ہیں؟ جسٹس منیب، جسٹس عائشہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے الگ الگ فیصلے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میں کسی فیصلہ کیساتھ اتفاق نہیں کرتا، خواجہ حارث جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن 2 ون ڈی ون کو فئیر ٹرائل کے منافی قرار دیا، جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی، جسٹس آفریدی نے کہا کہ قانونی سیکشنز پر لارجر بینچز کے فیصلوں کا پابند ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ 21 ویں ترامیم میں فیصلہ کی اکثرت کیا تھی، وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے بتایا کہ اکثریت 9 ججز سے بنی تھی، 21 ویں ترامیم کا اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا ہے، ترامیم کو اکثریت ججز نے اپنے اپنے انداز سے ترمیم کو برقرار رکھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترامیم کو 8 سے زیادہ ججز نے درست قرار دیا، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ نو ججز کا ہے، لیاقت حسین کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترامیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے، اس دوران جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا 21 ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کیس پر جوڈیشل نظر ثانی کی رائے دی؟
وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی کیس کے فیصلہ کا جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے، احتجاج اور حملہ کرنے میں فرق ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیصلہ میں اٹارنی جنرل حوالہ سے لکھا ہے کیس کو 9 مئی کے تناظر میں دیکھا جائے، 9 مئی ملزمان کو ملٹری ٹرائل میں سزا پر اپیل کے حق سے حکومت نے انکار کیا۔
جسٹس امین الدین خان نے بتایا کہ 21 جولائی 2023 کے آرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 9 مئی کو جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلہ میں نو مئی کے ملزمان کو کلین چٹ نہیں دی گئی، سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہیں، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترامیم میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے کیسز آرمی کورٹ میں نہیں چلیں گے، اس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی املاک پر حملہ ریاست کی سیکیورٹی توڑنا ہے سیاسی سرگرمی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترامیم کے بغیر دہشت گردوں کیخلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا، وکیل نے کہا کہ 21 ویں ترامیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔
دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے، یہاں کورکمانڈرلاہور کا گھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاوس پر احتجاج کرتے تھے، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت حملے ہوئے، جرم سے انکار نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟ پارلیمنٹ سب سے سپریم کورٹ ہے، کیا پارلیمنٹ خود پر حملہ توہین نہیں سمجھتی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا، سپریم کورٹ کو بھی شامل کریں، اس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہاں بات 2 ون ڈی ون کی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے نومئی ملٹری ٹرائل پر رائے دی آرمی ایکٹ کی شقوں پر فیڈریشن کو مکمل سنا ہی نہیں گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر اٹارنی جنرل کو 27 اے کا نوٹس دیا گیا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب کے نوٹ سے تو لگتا ہے اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان بنچ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کہا تھا دلائل آرمی ایکٹ کی شقوں کے بجائے نو اور دس مئی واقعات پر مرکوز رکھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ تو عجیب بات ہے، پہلے کہا گیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقوں کو کالعدم بھی قرار دیدیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہا تھا ہم نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ویڈیو لنک پر موجود فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ نے یہ بات سن لی ہے، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں نے کہا تھا کیس کو آرمی ایکٹ کے بجائے آئین کے تحت دیکھا جائے، نومئی واقعات کیخلاف دیگر درخواستیں دائر کی گئیں جن میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقیں کو کالعدم قرار دینے سے قبل فیڈریشن کو مکمل شنوائی کا حق ملنا چاہیے تھا، عدالت کا فوکس نو اور دس مئی واقعات پر تھا نہ کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر تھا۔
بعدازاں فوجی عدالتوں کے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، تاہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل آج بھی مکمل نہ ہو سکے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News