
تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کہ بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، اگر میرے سامنے شواہد نہیں ہیں تو ملزمان بری ہی ہونگے، پھر کہا جائے گا عدلیہ کا نمبر 250 نمبر پر آگیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 8(3) اے اگر میرے کیس میں محرک ہے تو پھر کوئی بنیادی حقوق نہیں رہیں گے، میری سبمیشن بس یہ ہے کہ سویلینز ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں پورے آرمی ایکٹ کو بلکل بھی چیلینج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اس چیز کا حوالہ دیا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ ملٹری ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ فیڈریشن کے دلائل اس سے مختلف ہیں، پہلے وہ کہہ رہے ہیں کہ 8(3) اے کی بیس پر آپ نہیں دیکھ سکتے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا رائیٹ جو کنسیسٹینٹ ہو وہ چیلنج ہو سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ڈی 1967 میں ایڈ ہوا ہے، ڈی کی حد تک اوریجنل تھا 1952 سے 1967 سے اج تک یہ ایکٹ چلا رہا ہے، ایف بی علی کیس میں متنازع ہوا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ بھی ہو سکتا یے، آج کل ہم اس میں بھی آ گئے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اس طرح کی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس، اور مختلف واقعات کا ذکر کیا تھا۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ نو مئی اور 16 دسمبر والے سویلینز میں کیا فرق ہے، جس پر وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 16 دسمبر والے دہشتگردی کے واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے بعد میں ترامیم کرنا پڑی تھی پھر ان کے ٹرائل ہوئے تھے۔
وکیل سابق چیف جسٹس نے دلائل دیے کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، جس پر جسٹس حسن رضوی نے سوال کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ ہوا، 9 مئی پر احتجاج ہوا، دونوں واقعات کے سویلین میں کیا فرق ہے؟ وکیل احمد حسین نے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعے کے بعد 21ویں ترامیم کی گئی۔
سابق چیف جسٹس کے وکیل احمد حسین نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری کورٹس میں نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں آئین سے منافی قانون سازی کو عدالت دیکھ سکتی ہیں۔
وکیل احمد حسین نے دلائل دیے کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا، کیا آپ کو اعلامیہ پر اعتراض ہے، میرا اعلامیہ کے پہلے حصے پر اعتراض نہیں، اعلامیہ میں کہا گیا کہ 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، کور کمانڈر اجلاس اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے، جو خود متاثرہ ہو وہ فریق کیسے انصاف دے سکتا ہے۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپکے یہ دلائل کیس کے میرٹس سے متعلق ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آپ عدالتی فیصلے تک اپنے دلائل محدود رکھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے تو کلبھوشن جیسے واقعات میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جس پر وکیل نے کہا کہ احمد حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادو پر بات نہیں کی گئی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مستقل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اسکا ٹرائل کہاں ہوگا، جس پر وکیل نے کہا کہ اسکا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا، اس کے بعد جسٹس حسن اظہر نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اچھا جی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے اسپیشل ریمیڈی والوں کو استثناء ہے، یہ تو عجیب بات ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جسٹس علی مظہر یہ حقیقت ہے مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا، میں اپنے دلائل کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔
بعدازاں فوجی عدالتوں کے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News