
سویلینز ٹرائل کیس: آرمی کے کام میں ایگزیکٹو کہاں سے آگیا؟ آئینی بینچ
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرمی کے کام میں ایگزیکٹو کہاں سے آگیا؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز اٹارنی جنرل کی عدالت کو یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کا ذکر کیا تھا، اٹارنی جنرل کی تحریری یقین دہانیوں کا ذکر پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں موجود ہے، تحریری یقین دہانیاں جن متفرق درخواستوں کے ذریعے کرائی گئیں ان کے نمبر بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔
وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ ایف بی علی 1965 کی جنگ کا ہیرو تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آفس پر اثر رسوخ کا الزام لگا، ایک ریٹائرڈ شخص کیسے اپنا آفس کو استعمال کر سکتا ہے، جنرل ضیاء الحق نے ایف بی علی کا ملٹری ٹرائل کیا، جنرل ضیاءالحق نے 1978 میں ایف بی علی کو چھوڑ دیا، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو کام ایف بی علی کرنا چاہ رہا تھا وہ ضیاءالحق نے کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں ملٹری ٹرائل کیلئے مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے، پروسیجر میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، آرمی ایکٹ میں فراہم پروسیجر پر عمل نہ ہونا الگ بات ہے، پروسیجر پر عمل نہ ہو تو پھر اسکی دستیابی کا کوئی فائدہ نہیں، ملٹری کورٹ پر دو اعتراض ہے، ایک اعتراض یہ ہے کہ ملٹری ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہوتا اور دوسرا اعتراض قانونی تجربہ نہ ہونے کا لگایا گیا۔
وکیل نے کہا کہ ملٹری کورٹ ایگزیکٹو کا حصہ ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرمی کا کیا کام ہوتا ہے، آرمی کے کام میں ایگزیکٹو کہاں سے آگیا؟ وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ آرمی کا کام سرحد پر لڑنا ہے، اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ ملٹری کورٹ کی عدالتی حیثیت تسلیم کرتے ہیں؟ اگر فوجی عدالت کو عدلیہ تسلیم کرتے ہیں تو اس کے نتائج کچھ اور ہونگے، اگر ملٹری کورٹ جوڈیشری ہے تو پھر وہ عدلیہ ہے، جسٹس منیب نے ملٹری کورٹ کو عدلیہ نہیں لکھا۔
وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ عدالت فیصلے میں قرار دے چکی سول نوعیت کے جرائم پر سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، فوجی عدالتیں آئین کے تحت بنے عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہیں، فوجی عدالتوں میں ٹرائل صرف ان سویلنز کا ہوسکتا جو فوج کا حصہ ہوں، آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 4 کی موجودگی میں سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن نہیں۔
درخواستگزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل ہو گئے تاہم لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان کل سے دلائل دیں گے۔
بعدازاں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News