
جے 31، پاک فضائیہ کی ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی جانب پیشقدمی
پاک فضائیہ کی ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی جانب پیشقدمی، پہلے ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی شمولیت کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی فضائوں کی محافظ پاک فضائیہ نے ہمیشہ معیار کو مقدار یعنی کوالٹی کو کوانٹیٹی پر ترجیح دی، یہی وجہ ہے کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ سے فروری دوہزار انیس تک کامیابی و کامرانی نے ہمیشہ پاکستان کے شاہینوں کے قدم چومے۔ انتیس دسمبر دو ہزار تئیس کو ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی جانب سے جدید ترین اسٹیلتھ فائٹر جیٹ جے تھرٹی ون کے حصول کے اعلان کے بعد پاکستان کے مشرقی پڑوسی کو سانپ سونگھ چکا ہے، ونگ کمانڈر ابھی نندن کی فنٹاسٹک ٹی والے سرپرائز کے بعد، اومنی رول جے ٹین سی طیاروں کے حصول اور ترکی کے ساتھ ففتھ جنریشن ٹی ایف ایکس کی جوائنٹ پروڈکشن کے آغاز سے ہی بھارت کے ہاتھ پائوں پھولنے لگے تھے مگر اب چین کے جے تھرٹی ون ففتھ جنریشن اسٹیلتھ فائٹر کی پاک فضائیہ میں شمولیت کا اعلان سن کر تو نیندیں بھِ اڑ چکی ہیں۔ اس اہم ترین پیشرفت ہر چند بنیادی سوالات بھی جنم لیتے ہیں ، پہلا سوال تو جے تھرٹی ون کی پی اے ایف میں شمولیت کی ٹائم لائن کا ہے، یعنی اعلان تو ہو گیا لیکن عملی طور پر کب ہو گا؟ دوسرا کہ پاکستان کو جے تھرٹی ون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تیسرا کہ پاک ترک جوائنٹ پروڈکشن ٹی ایف ایکس ففتھ جنریشن طیارے کے پراجیکٹ کا کیا ہو گا؟ اور چوتھا کہ اب بھارت کیا کرے گا؟
سب سے پہلے بات کرتے ہیں جے تھرٹی ون کی ٹائم لائن کی، یعنی کب یہ اسٹیلتھ طیارہ پی اے ایف میں شامل ہو گا، اس کے لئے 29 دسمبر دو ہزار تئیس کو ائیر چیف کے خطاب پر غور کریں جنہوں نے پاک فضائِیہ کو نیکسٹ جنریشن ائیر فورس بنانے کے وژن کی بات کرتے ہوئے صرف اور صرف دو جملوں میں ساری بات کہہ ڈالی، ائیر چیف کا کہنا تھا کہ،’ جے-31 اسٹیلتھ فائٹر طیارے کے حصول کے لیئے بنیاد رکھ دی گئی ہے جوکہ مستقبل قریب میں پاک فضائیہ کے فضائی بیڑے کا حصہ بننے جا رہا ہے۔
ان دو جملوں پر غور کیا جائے تو ساری بات سمجھ آ جاتی ہے یعنی، پاکستان ائیرفورس چین کی شینیینگ کارپوریشن سے جے تھرٹی ون کے حصول کے لئے پیشرفت کر چکی ہے، اب یہ خالی خولی دعوی نہیں بلکہ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کے حصول کے لئے عملی کام کا آغاز ہو چکا ہے، چین سے طیاروں کا حصول پی اے ایف کے لئے نیا نہیں، جے ٹین سی ہوں یا ایف سیون پی جی اور دیگر چینی ساختہ طیارے، اور تو اور پاکستان اور چین اور چین جے ایف سیونٹین تھنڈر جیسے شاندار جوائنٹ وینچر کی کامیاب مثال بھی رکھتے ہیں۔ بقول ایئر چیف جے تھحٹی ون کے حصول کی بنیاد رکھی جا چکی ہے تو اس کا مطلب ہے ورک ان پراگریس اور ان کے اگلے جملے سے ہی ہمیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ورک ان پراگریسن کا نتیجہ کب نکلے گا۔ جس نتیجے کا انتظار ہے یعنی جے تھرٹی ون کی پی اے ایف کلر اسکیم میں پاکستانی ایئر بیس پر لینڈنگ کا ۔۔۔ تو وہ بھی ائیر چیف کہہ چکے ہیں کہ ” مستقبل قریب میں” یعنی کہ جے تھرٹی ون کی پی اے ایف میں شمولیت کئی برسوں پر محیط عمل نہیں ہو گا بلکہ ریڈی فور کومبیٹ حالت میں ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کو تربیت یافتہ پی اے ایف پائلٹس مستقبل قریب میں پاکستان میں لینڈنگ کرواتے دکھائی بھی دیں گے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں جے تھرٹی ون کی ٹائم لائن کی، یعنی کب یہ اسٹیلتھ طیارہ پی اے ایف میں شامل ہو گا، اس کے لئے 29 دسمبر دو ہزار تئیس کو ائیر چیف کے خطاب پر غور کریں جنہوں نے پاک فضائِیہ کو نیکسٹ جنریشن ایئر فورس بنانے کے وژن کی بات کرتے ہوئے صرف اور صرف دو جملوں میں ساری بات کہہ ڈالی، ائیر چیف کا کہنا تھا کہ’ جے-31 اسٹیلتھ فائٹر طیارے کے حصول کے لیئے بنیاد رکھ دی گئی ہے جوکہ مستقبل قریب میں پاک فضائیہ کے فضائی بیڑے کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ اب تھوڑے کو بہت سمجھیں، ایئر چیف ظہیر احمد بابر سدھو کے یہ دو جملے بھارتی وایو سینا کے لئے بلکل PRECISION STRIKE ثابت ہوئے ہیں۔ اب جلدی سے دوسرے سوال پر آتے ہیں کہ پاکستان کو ترکی کے ساتھ ٹی ایف ایکس جوائنٹ وینچر کے ہوتے ہوئے چینی ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پاکستان اور ترکی کا ٹی ایف ایکس پراجیکٹ اب تک تو اپنی طے شدہ ٹائم لائن کے قریب قریب ہے، یعنی سب ٹھیک رہا تو دو ہزار تیس سے پہلے پہلے پاکستانب اور ترکی دونوں ملکوں کی فضائی افواج اپنا تیار کردہ ٹی ایف ایکس فائٹر جیٹ اڑا رہی ہوں گی۔
بھارت کی جانب سے ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کے حصول کی باتیں ابھی صرف باتوں تک محدود ہیں۔ بھارت نے روس کو ففتھ جین جیٹ منصوبے پر سرخ جھنڈی دکھائی، امریکہ یقینا بے اعتبار دوغلے بھارت کو ایف تھرٹی فائیو دے گا نہیں اور خود بھارت ابھی تک تیجس کو ٹھیک سے نہیں بنا پایا تو ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کا تو سوچنا بھی محال ہے۔ ایسے میں یقینی طور پر مستقبل پر نظر اور جدید ٹیکنالوجی کے ذرئیعے دشمن پر برتری کے وژن کی بدولت ہی پاک فضائیہ آگے بڑھنا چاہ رہی ہے۔ پھر بات ہوتی ہے کہ ٹی ایف ایکس پراجیکٹ کے مستقبل کی کہ جے تھرٹی ون کے ہوتے ہوئے پاک فضائیہ ایک اور ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کا کیا کرے گی؟ اس کے جواب میں یہ بات ضرور سامنے رہنی چاہئیے کہ جے تھرٹی ون پاکستان بلکل ویسے ہی حاصل کر رہا ہے جیسے جے ٹین سی یعنی بنے بنائے جبکہ ٹی ایف ایکس پاکستان کا اپنا پراجیکٹ ہے جو قائداعظم کی پاک فضائیہ کو خود انحصاری اور INDIGENISATION کے بارے میں کی گئی نصیحت کی روشنی میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت پاکستان کو طیارہ سازی کے میدان میں انمول تجربہ اور صلاحیت ملے گی جو مستقبل قریب میں مکمل طور پر میڈ ان پاکستان پراجیکٹ کی بنیاد بنے گی۔
اب رہی بات بھارت کی کہ وہ کیا کرے گا؟ یہاں پر بظاہر بھارت کے لئے کوئی فوری آپشن موجود نہیں، یعنی جیسے پاکستان ایئر فورس مستقبل قریب میں ففتھ جنریشن جے تھرٹی ون اڑاتی دکھائی دے گی ویسے بھارت کے پاس کوئی چانس نہیں۔ روس کے ساتھ سخوئی ففٹی سیون پراجیکٹ سے بھارت بھاگ چکا ہے، روس پرانی دوستی کے ناطے مان بھی جائے تو یوکرین جنگ کی بدولت وہ بھارت کو فوری ریلیف یعنی ففتھ جنریشن طیارہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔ روس کے ساتھ نئے عالمی نظام کی بات کرنے والے بھارت کو امریکہ چین کے ڈراوے کے باوجود ایف تھرٹی فائیو دینے کی سہولت کاری نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی سموسہ پراجیکٹ یعنی تیجس کے پہلے ورژن کے فلاپ ہونے کے بعد بھارتی وایو سینا شدت سے تیجس ایم کے ٹو کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، ایسے میں بھارت کا ایڈوانسڈ میڈئیم کومبیٹ ائیرکرافٹ ابھی تک صرف ڈرائنگ بورڈ پر ہے، تمام تر اپروولز ہو جائیں، پروٹو ٹائپ بن جائے، سب ٹیسٹ ہو بھی جائیں تو بھی بھارتی ففتھ جنریشن لڑاکو ومان اگلی دہائی سے پہلے اڑان بھرتا دکھائی نہیں دیتا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News