وزیراعظم عمران خان کی سپریم کورٹ میں طلبی کے معاملےپرتحریک انصاف لائرز فورم نے وزیراعظم سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق انصاف لائرز فورم کے اراکین وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان انصاف لائرز فورم کے ارکان سے ملاقات کریں گے اور اس ملاقات میں سپریم کورٹ میں طلبی کے بعد کی صورتحال پر غور ہوگا۔
واضح رہےکہ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آرمی پبلک اسکول پر حملے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں وزیراعظم سے پوچھا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟
وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ ہماری اُس وقت صوبے میں حکومت تھی۔ اس وقت جو اقدامات ہوسکتے تھے ہم نےکیے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو میں فورا پشاورپہنچا۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم سے کہا کہ ہمیں آپ کی پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکارنہیں۔ ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کی لیکن اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں، میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ والدین کو تسلی دینا ضروری ہے، والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی ہو۔
عمران خان نےعدالت کو بتایا کہ بچوں کے والدین کو اللہ صبر دے گا۔ ہم معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتے تھے۔ میں پہلے بھی ان سے ملا تھا، اب بھی ان سے ملوں گا۔
وزیراعظم نےسپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی جس کے بعد سانحہ آرمی پبلک اسکول پر حملے سے متعلق کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لیےملتوی کرتے ہوئے عدالت نے حکومت کو 20 اکتوبر کے حکم نامے پر بھی عملدرآمد کی ہدایت دی۔
گزشتہ سماعت پر درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اے پی ایس حملے میں ہم نے اپنے بچے کھو دیے لہذا کیس کی ایف آئی آر درج کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کرکے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
آج کیس کی سماعت کے ابتدا میں عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو حکم دیا تھا کہ اس کیس میں وزیراعظم کوآج ہی بلایں۔ یہ واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھا،حکومت کو اس کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں۔ اعلی حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ دفترچھوڑ دوں گا لیکن کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔
خالد جاوید خان نے یہ بھی کہا کہ اگر عدالت تھوڑا وقت دے تو وزیراعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لیکرعدالت کو معاملے سے آگاہ کروں لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے، اس پر وزیراعظم ہی سے جواب طلب کریں گے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندرسے سپورٹ نہ ملی ہو۔ آپریشن ضربِ عضب جاری تھا اور اس کے ردِ عمل پر یہ سانحہ پیش آیا۔ حکومتی اداروں کو سیکیورٹی سے متعلق ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے تھے
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
