
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پر باندھ کر تماشا دیکھے؟ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت میں وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب ترمیم اس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں۔ اس نقطے پر قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کرسکتی ہے یا نہیں۔ سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کررکھا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا۔ چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے۔ لائن ہو فالو کریں تو اس کا فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے۔ نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا۔
عدالتِ عظمٰی نے ریمارکس دیے کہ کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پر باندھ کر تماشا دیکھے؟ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی۔ مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے۔ سسٹم میں موجود خامیوں کو کبھی دورکرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کیلئے قانون بنائے اورعمل بھی کرائے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ پر صوبے میں پانچ ماہ بعد آئی جی اور تین ماہ بعد ایس ایچ او بدل جاتا ہے۔ ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ماضی میں ریکوڈک اور اسٹیل مل کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے۔ حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبارتباہ ہوچکے ہیں، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ نیب قانون کا اطلاق افواج پاکستان پر نہیں ہوتا، فورسز کے ان افسران پر نیب قانون لاگو ہوتا ہے جو کسی سول ادارے میں تعینات ہوں۔ نیب قانون کا اطلاق عدلیہ پربھی نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ڈسپلن کے معاملے پر افواج کیخلاف رٹ نہیں ہوسکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ججزکو نوکری سے ہی نکالا جا سکتا ہے ان سے ریکوری نہیں ہوسکتی۔ رٹ تعیناتی یا تبادلے کے معاملے میں نہیں ہوسکتی۔ فیصلے میں انفرادی کرپشن پر کسی فوجی افسر کو چھوڑنے کا کہیں ذکر نہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ 2001 میں دیا تھا تب حکومت کس کی تھی؟
وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ حکومت جس کی بھی تھی فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی دیا تھا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 25 مساوات کی بات کرتا ہے کسی کیساتھ جانبداری نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کو بھی استثنیٰ دینا سمجھ سے بالاترہے۔ فوج کیخلاف بات نہ کرنے کا مطلب نہیں کہ کرپشن پران کے خلاف کارروئی نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایڈمرل منصورکو پاکستان لا کر نیب نے کارروائی کی تھی، ماضی میں کئی فوجی افسران کیخلاف کارروائی کی مثال موجود ہے۔
سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث عدالتی سوالات کے جواب دیں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News