Advertisement
Advertisement
Advertisement

عدلیہ کی آزادی پرحملہ ہواتومیں اورتمام ساتھی کھڑےہونگے، چیف جسٹس پاکستان

Now Reading:

عدلیہ کی آزادی پرحملہ ہواتومیں اورتمام ساتھی کھڑےہونگے، چیف جسٹس پاکستان
ججز کو خط ملنے کا معاملہ

میرے ہوتے ہوئے مداخلت ہو تو خود کو احتساب کیلئے پیش کروں گا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی پرحملہ ہواتومیں اورتمام ساتھی کھڑےہونگے، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔ 

6ججزکےخط سےمتعلق سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 7رکنی لارجربنچ سماعت کر رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سماعت کے دوران پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس معاملےمیں آگےکیسےبڑھاجائے، میراخیال ہےپریس ریلیزسےشروع کیاجائے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ بارکی طرف سے آئینی درخواست دائرکی ہے، عدالت سےاستدعا ہے ہائیکورٹ بارکی درخواست کوبھی ساتھ ہی سناجائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کےبعدچیف جسٹس کی مرضی والاکام ختم، کمیٹی کےاختیارات عدالت استعمال نہیں کر سکتی، ابھی تک میرےسامنےایسی درخواست نہیں آئی۔

Advertisement

حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں صرف توجہ دلوارہاہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ پہلےچیمبرمیں جاکربھی کیس لگ جاتےتھےاورعدالت میں کھڑےہوکربھی،آپ نےتوجہ پورے پاکستان کی دلوادی ہے، درخواستیں دائرہونےسےپہلےمیڈیامیں آنابھی درست نہیں۔ کیایہ بھی عدالت پردبائوڈالنےکاایک طریقہ ہے؟

’’میں کبھی پریشرنہیں لیتا‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگروکیل کہہ رہےہیں کہ سوموٹولیاجائےتووہ وکالت چھوڑدیں۔ میں کبھی پریشرنہیں لیتا، میرےفیصلوں سے بتائیں کہ پریشرمیں کیاگیاہےیانہیں، سپریم کورٹ باروکلاکی نمائندہ تنظیم ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ بارصرف ایک نمائندہ تنظیم ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہماری درخواست کاجائزہ بھی کمیٹی میں لیاجائے جس پرعدالت نے کہا کہ کیا ساری بات اب آپ کےساتھ دوبارہ سےکی جائے؟ آج کل پراپگینڈا بہت ہو رہا ہے،  جس دن کوخط ملااسی دن تمام ججزاورہائیکورٹ چیف جسٹس سےملا،  منصورعلی شاہ میرےساتھ تھے، اس سےزیادہ چستی کیاہوسکتی ہے، عدلیہ کی آزادی پرکوئی سمجھوتانہیں ہوگا۔

Advertisement

’’عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے‘‘

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ واضح کرتاہوں اس معاملے پرزیروٹالرنس ہوگی، ہوسکتاہےکوئی ہم سےبہترکام کرسکتاہو، سپریم کورٹ باراورپاکستان باراہم سٹیک ہولڈرزہیں، بارنمائندگان سےملاقات کےبعدفل کورٹ اجلاس ہواتھا، عہدہ سنبھالنےکےبعدسب سےپہلاکام فل کورٹ اجلاس بلانےکاکیا، عدلیہ کی آزادی پرحملہ ہواتومیں اورتمام ساتھی کھڑےہونگے، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ انتظامی معاملہ ہوتا ہے، وزیراعظم اور وزیرقانون سے ملاقات کا وہیں فیصلہ ہوا، باقاعدہ اجلاس کا درجہ دینے کیلئے ویراعظم، وزیرقانون اور اٹارنی جنرل سے ملاقات کی، ہماری رفتار دیکھیں فل کورٹ کے اگلے ہی دن وزیراعظم سے ملاقات کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا تھا جب بھی چیف جسٹس بلائیں ملنے کو تیار ہوں۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا کہ چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا، جب میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ چیف جسٹس آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پہلی فرصت میں ملاقات طے کی جائے، وزیراعظم نے عدالت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی، حکومت کی جانب سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو کمیشن سربراہ بنایا جائے۔

منصورعثمان اعوان نے کہا کہ مختلف تجاویز آئیں جن میں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے نام پر بحث ہوئی،  حکومت کبھی اپنا کمیشن بنا کر کوئی کام نہیں کرانا چاہتی، انکوائری ایکٹ کے تحت بنے کمیشن کے پاس عدالتی نوعیت کے اختیارات ہوتے ہیں، قانون تمام اداروں کو کمیشن کی معاونت کا پابند بناتا ہے، چیف جسٹس نے ناصرالملک اور تصدق جیلانی کے نام تجویز ہوئے تھے، عدلیہ سے کہا تھا کہ خود نام تجویز کرے جس پر نام دیے گئے تھے۔

Advertisement

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیرقانون نے تصدق جیلانی سے ملاقات کرکے رضامندی کی درخواست کی، تصدق جیلانی نے ٹی او آرز دیکھنے کے بعد رضامندی ظاہر کرنے کا کہا تھا، ٹی او آرز کی منظوری سے پہلے تصدق جیلانی سے ٹی او آرز شیئر کیے گئے، تصدق جیلانی نے کہا ایسی شق بھی شامل ہو کہ الزامات سے جڑے معاملات کی تحقیقات ہوسکیں، طے ہوا کہ کمیشن وفاقی شرعی عدالت میں کام کرے گا، جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے آمادگی ظاہر کی، لیکن تاثر دیا گیا کہ حکومت کمیشن بنا رہی ہے۔

’’تصدق جیلانی پر ذاتی حملے بھی کیے گئے اور سوشل میڈیا سے پریشر ڈالا گیا‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تصدق جیلانی پر ذاتی حملے بھی کیے گئے اور سوشل میڈیا سے پریشر ڈالا گیا، جس انداز میں دبائو ڈالا گیا مجھے ان کا نام تجویز کرکے شرمندگی ہو رہی تھی، یہ بھی بتا دیں کہ جو انکوائری کمیشن کے لیے نام ہم نے تجویز کیے تھے۔

منصورعثمان اعوان نے کہا کہ جی بلکل جسٹس ر تصدق جیلانی سمیت دیگر نام عدلیہ کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے، کابینہ کی میٹنگ کے بعد جسٹس ر تصدق جیلانی کا نام فائنل کیا گیا، سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، حکومتی کمیشن کی تمام حکومتی ادارے معاونت کے پابند ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کیلئے سامنے آیا، تصدق جیلانی صاحب ایک غیر جانبدار شخصیت کے مالک ہیں، وزیر اعظم سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملے اور کمیشن کی تشکیل کا بتایا، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے کہا ٹی او آرز کے بعد جواب دونگا۔

جسٹس (ر) تصدق جیلانی کا کمیشن سربراہی سے معذرت پر مبنی لکھا گیا خط عدالت میں پیش

Advertisement

جسٹس (ر) تصدق جیلانی کا کمیشن سربراہی سے معذرت پر مبنی لکھا گیا خط عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے تصدق جیلانی کا خط پڑھ کرسنایا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تصدق جیلانی نے مجھے اختیار دیا کہ معاملے کو حل کروں، میں مشاورت پر یقین رکھتا ہوں، ہائی کورٹ ججز نے ملاقات میں کہا آپ دونوں جو مناسب سمجھیں وہ فیصلہ کریں، یہ تاثرغلط ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات حکومت کو دیدے ہیں، آئین میں سپریم کورٹ کے پاس کمیشن بنانے کا آئینی اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ میں پہلے کمیشن بنے ہیں لیکن آئینی اختیارات نہیں ہیں، میرے سمجھ کے مطابق کمیشن بنانے کا اختیار پارلیمان کے سرکار کو دیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے، عدلیہ کی آزادی کئی فیصلوں اور وکلاء تحریک کے بعد ملی، سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی بنی اور مانیٹرنگ ججز بھی تعینات ہوئے، مانیٹرنگ جج کی تعیناتی آرٹیکل 203 کے خلاف تھی، مرزا افتخار نے چیف جسٹس صاحب آپ کو قتل کی دھمکیاں دی تھیں، آپ کی اہلیہ نے شہزاد اکبر اور فیض حمید کو نامزد کیا لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی، عدالت اس وقت اورآج کی حکومت کا کنڈکٹ دیکھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز خط میں بیان کچھ واقعات ایک سال یا اس سے کچھ پرانے ہیں، ان واقعات کے شواہد جمع کرنے ہونگے اس لئے کمیشن تشکیل دینا مناسب سمجھا، عدالت کو آج بھی جو معاونت درکار ہے وفاقی حکومت فراہم کرے گی، ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف حکومت کی ساکھ بھی سٹیک پرہے، اس بات کی نفی کرتا ہوں کہ حکومت کی عدلیہ کی آزادی کیخلاف کوئی پالیسی نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل کو ججز کا لکھا گیا خط پڑھنے کی ہدایت

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اب ججز کا لکھا گیا خط پڑھیں، ہائی کورٹ ججز کا خط کئی مرتبہ پڑھا ہے اس کے کئی پہلو ہیں، خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ہے میں صرف اس کا چیئرمین اور ممبر ہوں، تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے۔

Advertisement

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹایا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا، عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے، ججز کو دبائو ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے، آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ججز نے خط میں کہا معاملے کی انکوائری کرکے ذمہ داران کا تعین کیا جائے، انکوائری پولیس، ایف آئی اے یا پھر کمیشن کر سکتا ہے، ججز نے کھل کر بات نہیں کی لیکن اشارہ کر دیا ہے، کبھی کسی جج کو توہین عدالت کی کارروائی سے نہیں روکا، توہین عدالت کی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ سمیت کسی کو اجازت کی ضرورت نہیں، توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہائی کورٹ کو آئین نے دیا ہے، جس عدالت کی توہین ہو رہی ہے کارروائی بھی وہی کرسکتی ہے۔

’’ ہم دونوں سینئرججز کو چھوڑکرجسٹس اعجازالاحسن کو ملاقات میں شامل کیا گیا‘‘

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ ججز کے خط میں 19 مئی 2023 کی چیف جسٹس عمرعطا بندیال سے ملاقات کا بھی ذکر ہے،  ملاقات میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وضاحت کردوں کہ میں سینئر ترین جج تھا میرے بعد جسٹس سردار طارق سینئر تھے، ہم دونوں سینئر ججز کو چھوڑ کر جسٹس اعجاز الاحسن کو ملاقات میں شامل کیا گیا،  مجھ سے اس معاملے پر کبھی کوئی مشاورت بھی نہیں ہوئی تھی، ہائی کورٹ کے ججزسے ملاقات ہوئی لیکن میرے پاس بطور سینئیر ترین جج کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعسیٰی نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلا سکتے جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو آئینی استثنی حاصل ہے۔

’’کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا‘‘

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا، کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں بھی احترام چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پرعملدرآمد میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی جس پرچیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا کہ یہ بات نہ کریں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت کی بات کررہا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ شرط لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے، الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا، سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کرینگے، تین سو وکلاء کا خط چل رہا ہے اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہا ان سے غلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟ اس پرحکومت نے کیا کیا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا، ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مداخلت یہاں رک جائے اور مستقبل میں نہ ہو۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا۔

Advertisement

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ضمانت دی اور اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چھہتر سال سے ملک کیساتھ یہ ہو رہا ہے جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ ایم پی او کا سہارا لیکرعدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی حکومت ہی کر رہی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ حکومت پر الزام لگا ہے کیا حکومت ہی اس کی تحقیقات کرے گی؟ اس معاملے میں جانے سے بہتر تجویز جسٹس منصورعلی شاہ نے دی ہے، آئین کو ناقابل عمل بنایا جا رہا ہے، اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے، کیا آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ یہ تاثر کیسے دیا جا سکتا ہے کہ آج کچھ نہیں ہو رہا۔

’’میرے ہوتے ہوئے مداخلت ہو تو خود کو احتساب کیلئے پیش کروں گا‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج کیا ہو رہا ہے خط میں ایسا کچھ نہیں ہے، میرے ہوتے ہوئے مداخلت ہو تو خود کو احتساب کیلئے پیش کروں گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے، ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں جو ہوا اس سے سبق سیکھیں لیکن مستقبل کیلئے لائحہ عمل تو بنائیں، ججز کے اس خط کو عدلیہ کی آزادی کیلئے سنہری موقع سمجھنا چاہیے۔

Advertisement

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بات کی چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے والے مرزا افتخار کی، کیا آپ نے یہ دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا یا نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ باتیں سب کرتے ہیں کرنا کوئی نہیں چاہتا، آپ کی حکومت اس کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ وہ کیس میرے متعلق ہے نہیں چاہتا تاثر جائے دباؤ ڈال رہا ہوں۔ اس پرجسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ مجھے بات پوری کرنے دیں، یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہا ان سے غلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟ اس پر حکومت نے کیا کیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا، ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے۔

Advertisement

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کچھ نہ کرے تو ہم نے کیا کرنا ہے، ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کر رہے لیکن کوئی سسٹم تو بنانا ہی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ حکومت عدلیہ کے کام میں مداخلت کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت عدلیہ کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس پاکستان کا فل کورٹ تشکیل دینے کاعندیہ 

چیف جسٹس نے کہا کہ باقی تمام ججز دوسری رجسٹریوں میں سماعت کر رہے ہیں، آج کا یہ حکم سمجھیں کہ عدلیہ کے کام میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرینگے، باقی ججزعید کے بعد واپس آ جائیں گے، عید کے بعد میں ایک ہفتہ لاہور دوسرا ہفتہ کراچی میں ہوں،  اسلام آباد میں واپسی 29اپریل کو ہوگی اس کے بعد سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرینگے، ہوسکتا ہے آئندہ تاریخ 30 اپریل ہوجائے یہ جائزہ لیکر طے کرینگے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وفاقی وزیر داخلہ کا درابن میں کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
بی ڈو نیویگیشن نظام پاکستان کی ترقی کا نیا سنگِ میل ہے، احسن اقبال
صدر مملکت کی درابن میں سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن پر مبارکباد
وزیراعظم کا درابن آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
اسلامی نظریاتی کونسل کا ودہولڈنگ ٹیکس سے متعلق مؤقف میں یوٹرن، حتمی فیصلہ مؤخر
ای سی سی کا استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر