
سعودی جوہری پروگرام اور محمد بن سلمان /فائل فوٹو
کیا سعودی عرب امریکا کے تعاون سے اپنا جوہری پروگرام شروع کرنا چاہتاہے ؟ اس حوالے سے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ٹرمپ کے دورہ سعودیہ کواہم قراردے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعد امریکا اور خلیجی ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے دور میں خلیجی ممالک کو امریکی عدم دلچسپی کا سامنا رہا، جس کے باعث انہوں نے دیگر طاقتوں سے دفاعی، اقتصادی اورتکنیکی تعاون بڑھانے کی کوشش کی۔
خلیجی ممالک ٹرمپ کی واپسی کو وہ ایک “سنہری موقع” تصور کررہے ہیں تاکہ امریکاکے ساتھ دیرپا اور فائدہ مند تعلقات قائم کیے جا سکیں۔
سعودی عرب کا بنیادی مطالبہ سیکیورٹی معاہدہ یا جوہری پروگرام ؟
سعودی عرب کے لیے دورہ امریکی صدر سب سے اہم ہے کیونکہ سعودی عرب امریکاکے ساتھ سیکیورٹی معاہدہ کرنا ہے یا جوہری پروگرام کےلئے حمایت چاہتاہے۔
ماہرین کے مطابق خلیجی ریاستیں امریکی سیکیورٹی ضمانت چاہتی ہیں تاکہ خطے میں استحکام قائم رہے۔
جوہری توانائی اور امریکاکا کردار
سعودی عرب سول جوہری پروگرام کے لئے یورینیم کو مقامی سطح پر افزودگی چاہتاہے ۔
یہ معاملہ امریکااور اسرائیل کے لیے حساس ہے کیونکہ یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت پیدا کر سکتی ہے۔
اگر امریکا اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو امریکی کمپنیوں کو بھی سعودی عرب میں بڑے تجارتی معاہدے حاصل ہو سکتے ہیں۔
معاشی شراکت داری اور تیل کی سیاست
ٹرمپ نے عندیہ دیاہے کہ اگر سعودی عرب امریکا میں ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا تو وہ وہاں کا دورہ کریں گے۔
سعودی حکومت نے اگرچہ اس رقم کی تصدیق نہیں کی تاہم امریکہ کے ساتھ اگلے 4 سال میں 600 ارب ڈالر کی تجارت اور سرمایہ کاری کا اعلان ضرور کررکھاہے۔
تاہم، سعودی عرب کو تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ معیشت کو تیل پر انحصار سے نکال سکے۔ دوسری جانب، ٹرمپ کم قیمت تیل کے خواہاں ہیں، جو سعودی منصوبوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News