چیٹ جی پی ٹی کا آغاز ایک سنگ میل ہے، جسے جوہری ہتھیاروں کے پہلے تجربات سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی ترقی سے جو “ڈیجیٹل آلودگی” پھیل رہی ہے، وہ ناقابل واپسی ہے اور اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔
مصنوعی ذہانت کی “خودکشی” کا خطرہ
ماہرین نے اس رجحان کو “ماڈل کولپس” یا “ماڈل آٹو فیجی ڈس آرڈر” (Model Autophagy Disorder) کا نام دیا ہے۔
مزید پڑھیں: چیٹ جی پی ٹی کا زبردست فیچر آگیا
اس میں، مصنوعی ذہانت کے ماڈلز اپنی ہی پیدا کردہ مصنوعی ڈیٹا پر تربیت حاصل کرتے ہیں، جس سے ایک خودکار اور مسلسل آلودگی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
اس عمل سے ماڈلز کی کارکردگی، تنوع، اور حقیقت پسندی میں کمی آتی ہے، جو کہ “ڈیجیٹل آلودگی” کے مترادف ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے مشابہت
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جوہری ہتھیاروں کے تجربات سے ماحول آلودہ ہوا، ویسے ہی مصنوعی ذہانت کی یہ “ڈیجیٹل آلودگی” ڈیٹا کے ماحول کو متاثر کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی چیٹ باٹ استعمال کرنے والے ہوجائیں ہوشیار
یہ ایک مسلسل اور پھیلتا ہوا عمل ہے، جس میں ہر نیا ماڈل پچھلے ماڈلز سے تربیت حاصل کرتا ہے، اور اس سے آلودگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
آگے کا راستہ
ماہرین کا مشورہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو صرف مصنوعی ڈیٹا پر تربیت دینے کے بجائے، حقیقی انسانی ڈیٹا پر بھی تربیت دی جائے تاکہ ماڈلز کی کارکردگی اور حقیقت پسندی برقرار رہے۔
مزید پڑھیں: امریکی فوج نے چیٹ جی پی ٹی سے عسکری مشاورت شروع کردی
اس کے علاوہ، ڈیٹا کی صفائی اور معیاری تربیتی سیٹس کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ “ماڈل کولپس” کے خطرات سے بچا جا سکے۔
نتیجہ
چیٹ جی پی ٹی کا آغاز ایک نئی “ڈیجیٹل آلودگی” کا آغاز ہے، جو مصنوعی ذہانت کی ترقی کے ساتھ ساتھ پھیل رہی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی کارکردگی اور حقیقت پسندی کو متاثر کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
