
امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اسرائیلی حملوں کے دوران گزشتہ 24 گھنٹوں میں تقریباً 100 مزید فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، جب کہ امدادی سامان کی شدید رکاوٹوں کے باعث آفات مزید بڑھ رہی ہیں۔
یہ قرارداد 15 رکنی کونسل کے 14 ارکان کی حمایت کے باوجود امریکا کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ امریکا اس قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والا واحد ملک تھا۔
قرارداد میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم واشنگٹن نے اسے “غلط اقدام” قرار دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کا مطالبہ قیدیوں کی رہائی سے براہ راست جڑا نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں زندگی کی بدترین خون ریزی دیکھی، اقوام متحدہ میں امریکی سرجن کا ہولناک انکشاف
امریکا کی عبوری سفیر، ڈوروتھی شیہ نے کونسل میں اس قرارداد کے خلاف امریکا کے موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا، “امریکا نے اس تنازعہ کے آغاز سے ہی یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، جس میں حماس کو شکست دینا اور اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ وہ دوبارہ اسرائیل کو خطرے میں نہ ڈالیں۔”
چین کے سفیر فو کانگ نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی ہر سرخ لکیر کو عبور کیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے، لیکن ایک ملک کی پشت پناہی کے باعث ان خلاف ورزیوں کو روکا نہیں جا سکا۔
الجزیرہ کے سینئر سیاسی تجزیہ کار، مروان بشارہ نے کہا کہ “امریکہ کا ویٹو اس کے لیے انتہائی تنہائی کا سبب بنے گا۔ واضح طور پر یہ ایک ابھرتا ہوا طوفان ہے جس میں بہت سے ممالک امریکا کے خلاف ہیں۔”
عالمی سطح پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن اسرائیل نے بار بار کسی بھی غیر مشروط یا مستقل جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کا غزہ میں اقتدار میں رہنا کسی صورت قابل قبول نہیں اور نہ ہی وہ غزہ کو اپنے قبضے میں چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی جبری انخلاء نے فلسطینیوں کو غزہ کے ایک تہائی سے بھی کم حصے تک محدود کر دیا: اقوام متحدہ
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، بدھ کے روز مزید 95 فلسطینی شہید اور 440 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حملوں میں واضح اضافہ ہوا ہے، اسرائیلی افواج نے غزہ کے مرکزی حصوں سمیت پورے علاقے میں مسلسل بمباری کی ہے۔
اس دوران، اسرائیلی فوج نے غزہ میں امریکا کی حمایت سے چلنے والی امداد کی تقسیم کے مقامات کے قریب آنے والے قحط زدہ فلسطینیوں کو خبردار کیا کہ انہیں “جنگی علاقے” سمجھا جائے گا، جب کہ ایک دن تک امدادی سامان کی ترسیل روک دی گئی۔
اس فیصلے کے بعد اسرائیلی فوج نے امداد کے متلاشی افراد پر کئی بار فائرنگ کی، جس میں سو سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی امدادی اداروں نے اس نئے امدادی عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور اس پر الزام لگایا ہے کہ یہ امداد کے اصولوں کے خلاف ہے اور اس میں امریکی سیکیورٹی اہلکاروں اور نجی کمپنیوں کا ملوث ہونا امداد کو عسکری رنگ دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ، ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل سے پھر اپیل کی کہ غزہ میں لوگوں کی مدد کے لیے امدادی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے، اور کہا کہ “تمام کراسنگز کھولے جائیں، زندگی بچانے والی امداد ہر طرف سے آنے دی جائے۔”
ادھر، اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (UNICEF) کے ترجمان جیمز ایلڈر، جو اس وقت غزہ میں ہیں، نے 24 گھنٹوں کے دوران جو حالات دیکھے، انہیں “تباہ کن” قرار دیا۔ ان کے مطابق، غزہ کے اسپتالوں اور گلیوں میں غذائی قلت کے شکار بچے بھرے ہوئے ہیں، اور بچے رو کر کھانا مانگ رہے ہیں۔
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، اور غزہ کی وزارت صحت کے مطابق یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال عالمی سطح پر شدید بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ جہاں ایک طرف اسرائیل کی کارروائیوں کے خلاف عالمی سطح پر آوازیں بلند ہو رہی ہیں، وہیں امریکا کے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں ڈٹ جانے کا مطلب عالمی سطح پر مزید تناؤ کو جنم دے رہا ہے۔
غزہ میں جاری جنگ اور قحط کی صورتحال نے عالمی برادری کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے، اور اقوام متحدہ نے امداد کی فراہمی کے لیے ایک منظم راستے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News