
اسکینڈینیویا کے ممالک ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں 22 ستمبر سے جاری پراسرار ڈرون حملوں کی گتھی پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
ان ممالک کے متعدد ہوائی اڈوں اور فوجی تنصیبات پر نا معلوم ڈرون کی پروازوں کے باعث سیکورٹی صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے کئی پروازیں معطل کرنا پڑیں۔
اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب ڈنمارک کے میڈیا نے انکشاف کیا کہ روسی بحری بیڑے کا جنگی جہاز ‘الیگزینڈر شبَالِن’ نے اپنا ٹریکنگ سسٹم بند کر کے ڈنمارک کی سمندری حدود کے بالکل قریب، صرف 12 کلومیٹر کی دوری پر موجودگی اختیار کی تھی۔ ماہرین کے مطابق، یہ ایک مشاہداتی کارروائی یا توجہ ہٹانے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن نے ان حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے روس کو براہِ راست مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے یوکرین کی حمایت کرنے والے ممالک کو دھمکانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے ڈنمارک میں ہونے والے یورپی یونین کے آئندہ سربراہی اجلاس کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فوجی اینٹی-ڈرون سسٹمز اور ریڈار بھیجنے کا اعلان کیا۔
دوسری جانب، ڈنمارک نے ان واقعات کو ہائبرڈ حملے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں خوف و ہراس پھیلانے اور اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی کوشش ہیں۔
نیٹو نے بھی بحیرہ بالٹک کے علاقے میں اپنی چوکسی بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کا بروقت سدباب کیا جا سکے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News