
قاہرہ کی دھوپ میں جگمگاتے فوجی پریڈ گراؤنڈ میں جب صدر انور سادات اپنی مسلح افواج کی کارکردگی پر فخر سے مسکرا رہے تھے، کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ دن ان کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔
وہ شخص، جس نے عرب دنیا میں پہلی بار اسرائیل سے صلح کا جراتمندانہ قدم اٹھایا، جس نے جنگ سے امن کا راستہ چنا، آج اپنے ہی سپاہیوں کے ہاتھوں موت کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ 6 اکتوبر 1981 صرف ایک تاریخ نہیں، بلکہ امن کی قیمت چکانے والے ایک عظیم رہنما کی قربانی کا دن بن گیا۔
مصر کے صدر انور سادات کو قاہرہ میں ایک فوجی پریڈ کے دوران شدت پسند فوجی افسران نے فائرنگ اور دستی بم حملے میں قتل کیا گیا۔ یہ حملہ اکتوبر 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کی آٹھویں سالگرہ کے موقع پر ہوا، جسے سادات ایک قومی فتح کے طور پر مناتے تھے۔
حملے کی قیادت لیفٹیننٹ خالد الاسلامبولی نے کی، جو شدت پسند تنظیم تکفیر والہجرہ سے وابستہ تھا۔ حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھے اور پریڈ کے دوران اچانک گاڑی سے نکل کر فائرنگ اور بمباری شروع کر دی۔
سادات کو چار گولیاں لگیں اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دو گھنٹے بعد چل بسے۔ واقعے میں دس دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے، جبکہ نائب صدر حسنی مبارک محفوظ رہے۔
1977 میں سادات نے اسرائیل کے ساتھ تاریخی امن معاہدہ کر کے ناصرف نوبل انعام حاصل کیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شدید مخالفت بھی مول لی۔
ان کے اس فیصلے نے کئی عرب ریاستوں اور انتہاپسند حلقوں کو ان کے خلاف کر دیا۔ ایران کے معزول شاہ کو پناہ دینا اور ان کا مقدمہ نہ ہونے دینا بھی عوامی غیظ و غضب کا باعث بنا۔
قتل کے بعد حسنی مبارک نے اقتدار سنبھالا اور درجنوں مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے 25 کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ پانچ حملہ آوروں کو سزائے موت جبکہ 17 کو قید کی سزا دی گئی۔ حملہ آوروں نے عدالت میں فخر سے جرم کا اعتراف کیا اور اپنے نظریات پر ڈٹے رہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News