
وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجوجن کی صوبے میں انتظامیہ اورامن و امان کو سنبھالنے میں ناکامی پر ان کے مخالفین اور سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے اکثر تنقید کی جاتی رہی ہے، اب انھیں اپنی ہی سیاسی جماعت یعنی بلوچستان عوامی پارٹی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ہرروزگھنٹوں, گھنٹوں گہری نیند سونے کی غیرمعمولی اورانتہائی افسوس ناک عادت اب ان کے اپنے ساتھیوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے جواہم انتظامی معاملات پران کی بے عملی پرکھلم کھلا انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
چیف منسٹرکی پراسرارگہری نیند کا اب کئی مہینوں سے ہرطرف چرچا ہے۔ تاہم، اس ہفتے ان کی اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اورسینیٹرمنظوراحمد کاکڑ نے اس بارے میں عوامی سطح پر سختی سے بات کی جس نے حکمران اتحاد اورحزب اختلاف کی جماعتوں کے اندرسب کوحیران کردیا۔
کئی ٹی وی شوزمیں بزنجو کی بے عملی پر تنقید کرنے کے علاوہ، کاکڑ نے وزیراعلیٰ کی نیند کی غیرمعمولی عادات کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک ویڈیوجاری کی جس سے بلوچستان میں تقریباً ہرمحاذ پرمعاملہ مزید خراب ہو گیا ہے۔
کاکڑ نے ایک حالیہ ٹی وی شو میں کہا کہ “وہ رات میں صرف چارگھنٹے جاگتے ہیں جب سارا صوبہ سو رہا ہوتا ہے، ورنہ وہ باقی 20 گھنٹے سوتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔”
کوئی اس طرح صوبے کو کیسے چلا سکتا ہے؟
انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ’’ ہم وزیراعظم میاں شہبازشریف سے درخواست کریں گے کہ وہ اگلی باررات کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں کیونکہ ہمارے وزیر اعلیٰ دن میں سو رہے ہوں گے۔‘‘
وزیراعلیٰ کے دفتر کے دروازے پارٹی کارکنوں کے لیے بند ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پیشرو جام کمال جو کہ ایک قابل احترام شخص تھے، کو تبدیل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے پارٹی کارکنوں اوراراکین سے دوری برقراررکھی تھی۔”
اسی ٹی وی شو میں وزیراعلیٰ کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے اس بات کی تردید کی کہ وزیراعلیٰ بزنجو نے پارٹی ارکان کے لیے دروازے بند کیے اورسارا دن سوتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عبدالقدوس بزنجوصوبے کے اب تک کے سب سے زیادہ فعال وزیراعلیٰ ہیں اور بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے چوبیس گھنٹے کام کررہے ہیں۔
تاہم، فرح عظیم کے الفاظ سوئے ہوئے وزیراعلیٰ کے دفاع کے لیے کافی نہیں تھے کیونکہ اب پورا صوبہ بزنجو کی عجیب عادت سے بخوبی واقف ہے۔
ایک سینئرپولیس افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پرہمیں بتایا کہ وزیراعلیٰ صاحب نے اسلام آباد سے کوئٹہ کے لیے مسلسل تین دن تک اپنی پروازیں مس کیں کیونکہ وہ شام تک جاگ نہیں سکے تھے۔
’’بالآخرکار انہوں نے کارکے ذریعے اسلام آباد سے کوئٹہ کا سفرکیا اورڈرائیور نے تصدیق کی کہ وزیراعلیٰ 1200 کلومیٹر کے سفر میں سوئے ہوئے تھے۔”
پولیس اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان دنوں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اس وقت کے آئی جی پولیس اورسیکرٹری داخلہ پوری رات جاگتے رہے اورہر ایک گھنٹے بعد وزیراعلیٰ کے قافلے کی لوکیشن معلوم کرتے رہے۔
ایک اورواقعہ کچھ یوں ہے کہ جب اس سال جولائی میں اسلام آباد میں حکومت بلوچستان اور کینیڈین بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے جا رہے تھے، تو بزنجواپنی غیرموجودگی کی وجہ سے توجہ کا مرکزتھے یہاں تک کہ ان کے ذاتی عملے کو بھی ان کے ٹھکانے کا علم نہیں تھا۔
آخر کاروزیراعلیٰ ایک نجی اپارٹمنٹ میں سوئے ہوئے پائے گئے اوربعد میں انہیں معاہدے پردستخط کرنے کے لیے اسلام آباد میں بلوچستان ہاؤس لایا گیا۔
وزیراعلیٰ شاذ و نادرہی صوبے کے اندرون اوریہاں تک کہ سیلاب سے تباہ ہونے والے علاقوں کا دورہ کرتے ہیں، جب کہ وزیراعظم میاں شہبازشریف اورکورکمانڈرلیفٹیننٹ جنرل آصف غفورنے بزنجو کے مقابلے میں بلوچستان کے زیادہ دورے کیے ہیں۔
کاکڑکی وزیراعلیٰ کے خلاف حالیہ برہمی کے بعد، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی (جو کہ بزنجو کے سرپرست کے طورپرجانے جاتے ہیں) نے بی اے پی کے سیکریٹری کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اوروہ پارٹی کی دونوں بڑوں کے درمیان ناراضگی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے قریبی پارٹی ارکان کا دعویٰ ہے کہ وزیراعلیٰ بزنجو نے اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے بارے میں کوئی دعویٰ جاری کرنے سے گریز کیا۔ تاہم پارٹی ارکان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کے مطابق سینیٹر کاکڑان پر اپنے بہت سے قانونی اورغیرقانونی کام کروانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
لیکن معاملہ کچھ بھی ہو، بزنجو کے خلاف کاکڑ کی تنقید کے نتیجے میں وزیراعلیٰ کے معمولات میں واضح تبدیلی آئی ہے، جوکہ ممکن ہے کہ عارضی ہو۔
وزیراعلیٰ نے عجلت میں دوسرے دن اپنے آبائی حلقے ’آواران‘ کے وسیع دورے کا منصوبہ بنایا اوربعد میں ایک کیڈٹ کالج اورکچھ سرکاری ترقیاتی اسکیموں کا افتتاح کیا۔
آئی جی پولیس اورچیف سیکرٹری بلوچستان عبدالخالق شیخ اور عبدالعزیز عقیلی جن کے بارے میں خیال ہے کہ دونوں آصف زرداری کے حمایت یافتہ ہیں، وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔
52 سالہ بزنجو میں، اپنی بے عملی کی وجہ سے خبروں میں رہنے کے باوجود، ایک نادرخوبی یہ ہے کہ وہ صوبے کے لیے جو بھی سرکاری وسائل دستیاب ہوں وہ ہمیشہ اپنے وزراء اور اپوزیشن کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اورانہیں کبھی محروم نہیں رکھتے۔
شاید وزیراعلیٰ کی اسی خوبی نے اب تک ان کی حکومت کوجوڑے رکھا ہے اورجب بھی میڈیا اورناقدین کی جانب سے ان پرسوال اٹھائے جاتے ہیں تو چند ایک کے علاوہ تقریباً تمام ممبران اسمبلی مختلف فورمزپران کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
بزنجو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہررکن اسمبلی، ضلعی انتظامیہ اورپولیس سمیت تمام سرکاری محکموں کے لیے اپنی پسند کے اہلکار حاصل کرنے کے لیے آزاد رہے۔
ممبران اسمبلی، جام کمال جیسے وزیراعلیٰ کے بعد، جو سرکاری محکموں میں سخت نظم و ضبط برقراررکھا کرتے تھے، اب بزنجو کی قیادت میں ملنے والے ان اختیارات پرمطمئن ہیں۔
وزیراعلیٰ کے چھوٹے بھائی جمیل اور وہاب، جو کہ اہم انتظامی معاملات میں بھی ان کی طرف سے کام کرتے ہیں، اکثر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں اسپیشل سیکرٹری لال جعفر کے ذریعے ہدایات جاری کرتے نظر آتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News