
کراچی میں سندھ حکومت اور شعبہ صحت کے عملے کے درمیان معاملات مزید سنگین ہوگئے ہیں، ڈاکٹروں اور طبی عملے نے سندھ سیکریٹریٹ کے باہر احتجاجی دھرنا دے کر حکومت پر اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، ان کے مطالبات میں ہیلتھ رسک الاؤنس اور دیگر مراعات شامل ہیں۔ مزید برآں، تقریباً ایک ماہ سے ان کا صحت عامہ کی تمام سہولتوں بشمول اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور دیگر میں آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹس (OPDs) اورجنرل آپریٹنگ رومز (OTs) کا بائیکاٹ جاری ہے۔
ان کے مطالبات میں ہیلتھ رسک الاؤنس، ترقیاں، سروس اسٹرکچر، ٹائم اسکیل، سیلاب ریلیف عطیہ کی مد میں دو دن کی کٹوتی شدہ تنخواہ کی ادائیگی اور ڈینٹل سرجن، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس، نرسوں اور نئے اسٹاف ممبران کی تقرری شامل ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے)، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)، سندھ پیرا میڈیکل اسٹاف ویلفیئر ایسوسی ایشن (ایس پی ایس ڈبلیو اے) اور ینگ نرسز ایسوسی ایشن (YNA) کی قائم کردہ گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ایچ اے) کی زیر قیادت صحت کی خدمات معطل ہیں۔
8 نومبر کو کراچی پریس کلب کے باہر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور نرسیں سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے اور وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس جانے سے روک دیا، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔ ایک درجن سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا، جن میں دو نرسیں بھی شامل تھیں،تاہم، بعد ازاں انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے 10 نومبر کوسندھ سیکریٹریٹ کے باہر 24 گھنٹے کا دھرنا دیا لیکن مظاہرین سے متعدد ملاقاتوں کے باوجود محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام انہیں منانے میں ناکام رہے۔
جی ایچ اے کے چیئرمین اور وائے ڈی اے سندھ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محبوب علی نوناری نے دھرنے کے دوران بول نیوز کو بتایا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی اجلاس کے بعد ہم نے حکومت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ جمعے کو دوپہر تک مطالبات پورے کریں، بصورت دیگر ہم سہ پہر 3 بجے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب بڑھیں گے اور وہاں دھرنا دیں گے، جب تک کہ یہ مطالبات پورے نہیں کیے جاتے ہیں۔
سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے احتجاجی ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور نرسوں کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پر مظاہرین بھی مشتعل ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ سکھر، بدین اور عمرکوٹ میں صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے کچھ جوڑوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے جبکہ کچھ کو حکومت کی جانب سے ریلیف دیا گیا، جی ایچ اے ان مسائل سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہیلتھ رسک الاؤنس، جسے گزشتہ ماہ ختم کر دیا گیا تھا، فوری طور پر اس کا نوٹیفیکشن واپس لیا جائے ، دیگر مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے، اور یہ کہ جی ایچ اے محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران کو دیگر مسائل کے حل کے لیے وقت دے گا۔
پی ایم اے سندھ کے صدر ڈاکٹر محمد خان شر نے کہا کہ ہم نے درخواست کی تھی کہ اسپیشل سیکریٹری صحت سندھ میں خیبر پختونخواہ (کے پی) ہیلتھ کیئر سسٹم کی پیروی کریں جبکہ ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس اور دیگر سہولیات میں نمایاں اضافہ جیسے الاؤنسز اور سہولتوں کی مد میں مزید مراعات فراہم کریں، لیکن میڈم ڈاکٹر عذرا پیچوہو ہیلتھ رسک الاؤنس کی بحالی کی سخت مخالف ہیں۔
سندھ پیرا میڈیکل اسٹاف ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اخلاق احمد خان کے مطابق صحت کے اعلیٰ حکام اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہیلتھ رسک الاؤنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ نچلے درجے کے ملازمین کے لیے ضروری ہے جو پہلے ہی کووڈ19 وباء اور آسمان کو چھوتی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ جب کہ 14 اکتوبر کو حکومت نے گریڈ 17 سے 20 کے لیے 35ہزار روپے اور گریڈ 1 سے 16 کے لیے 17ہزار روپے مالیت کے ہیلتھ رسک الاؤنس کو ختم کردیا۔ ہم مسلسل ایسے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں جو ہماری صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتے ہیں، لہذا اس الاؤنس کو جلد از جلد بحال کیا جانا چاہیے۔
وائی این اے سندھ کے صدر اعزاز علی کلیری نے کہا کہ ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو سیکرٹریز حل کر سکتے ہیں لیکن وہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے تاکہ بے بس عملہ نوٹیفیکیشن واپس لینے کے لیے ان کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نرسوں کے لیے سروس اسٹرکچر کو 2019 ءمیں منظور کیا گیا تھا، لیکن یہ ابھی تک التواء کا شکار ہے، اور ابھی تک بھرتی کے کوئی اصول معین نہیں کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نرسوں کو 20 سال سے ترقی نہیں دی گئی، ایک نرس کو گریڈ 14 پر تعینات کیا جاتا ہے، محکمے کی نااہلی کی وجہ سے وہ اسی گریڈ پر مر جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 614 نرسیں ترقی کی منتظر ہیں، جب کہ گریڈ 17 کی نرسوں کی 768 آسامیاں خالی ہیں، اس کے علاوہ گریڈ 18 کی 172، گریڈ 19 کی 19، اور گریڈ 20 کی دو آسامیاں خالی ہیں،۔ انہوں نے سوال کیا کہ حکومت ان اسامیوں کو پر کرنے کے لیے تاخیری حربے کیوں استعمال کر رہی ہے؟
صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے بارے میں وزیر صحت کے تضحیک آمیز ریمارکس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نرسنگ ایک مقدس پیشہ ہے، نرسیں فروخت نہییں ہوتیں، جب کہ پارلیمانی ارکان، سینیٹرز اور وزراء کی ملک کے انتخابات کے دوران خرید و فروخت ہوتی ہے۔
سیکریٹری صحت سندھ سید ذوالفقار شاہ سے متعدد کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔
مریضوں کو مشکلات
روزانہ کی بنیاد پر اسپتال کے ایمرجنسی شعبوں میں آنے والے ہزاروں غریب اور نادار مریض مایوس ہو کر نجی اسپتالوں اور کلینکس میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جو غریب مریضوں کو لوٹ کر اس صورتحال سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کووڈ ہیلتھ رسک الاؤنس کے حالیہ خاتمے پر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور سندھ کے وزیر صحت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے، اور وہ صحت عامہ کے اداروں میں اپنی بیماریوں کے بارے میں مشاورت اور دواؤں سے تقریباً ایک ماہ سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ کابینہ ذرائع کے مطابق صوبائی کابینہ نے کورونا وائرس کے بہت کم کیسز کی وجہ سے کووڈ ہیلتھ رسک الاؤنس ختم کردیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو ہر سال اس الاؤنس کی مد میں 24 ارب روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News