
قبائلی جرگے نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد فراہم کی
صرف ایک ہفتہ قبل 32 سالہ محمد گل نے بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں افغان فوجیوں کی شدید گولہ باری کے بعد خون میں لت پت کئی لوگوں کی لاشیں دیکھی تھیں۔
محمد گل خود ایک افغان چوکی سے چلائی جانے والی گولیوں کی زد میں آنے سے بال بال بچ گیا تھا جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑی سرحدی گزرگاہ کے طور پر قائم ” بابِ دوستی ” کے پار سے دکھائی دیتی ہے۔
اس نوجوان کی روزی روٹی کا انحصار افغانستان کے ساتھ تجارت پر ہے، اب معمولاتِ زندگی کی واپسی اور تقریباً دس دنوں کے وقفے کے بعد سرحدی گزرگاہ کے دوبارہ کُھلنے پر خوش ہے۔
انہوں نے کہا کہ “قبائلی عمائدین، علمائے کرام اور چمن کے تاجروں پر مشتمل جرگے کی کوششوں کی بدولت امن لوٹ آیا ہے جنہوں نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے”۔
محمد گل نے کہا ” اگر )پاکستانی فوج اور افغان فورسز(کے مابین جھڑپیں جاری رہیں تو میرا خاندان جلد ہی فاقوں کا شکار ہوجائے گا۔ یہ جھڑپیں پہلے ہی ہمیں نفسیاتی اور معاشی طور پر متاثر کرچکی ہیں”۔
11 دسمبر کو دونوں ملکوں کی سرحدی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب افغانستان سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے پاکستان میں داخل ہونے کے لیے لالہ محمد گاؤں میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی باڑ کو کاٹنے کی کوشش کی تھی۔
محکمہ داخلہ اور قبائلی امور بلوچستان کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ افغانستان سے اسمگلرز امیگریشن کے عمل سے گزرے بغیر ہماری سرزمین میں داخل ہونے کے لیے باڑ کاٹ رہے تھے۔
پاکستان نے دہشت گردوں اور اسمگلرز کی دراندازی روکنے کے لیے ہزاروں میل لمبی باڑ لگائی ہے۔
اس کوشش کے پیشِ نظر پاکستانی حکام نے بابِ دوستی کو ڈیڑھ گھنٹے کے لیے عارضی طور پر بند کیا۔
بعد ازاں اسی دن افغان فورسز نے پاکستان کی دو سرحدی چیک پوسٹوں شوکت اور الیاس پر فائرنگ شروع کردی۔ افغان فوجیوں نے سرحدی علاقے کے قریب واقع شہری بستیوں کو نشانہ بناتے ہوئے توپ خانے اور مارٹر گولوں کا بھی استعمال کیا۔ جس کے بعد پاکستانی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔
اس روز افغان گولہ باری کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے۔ 15 دسمبر کو چمن میں مزید گولے داغے گئے جس سے ایک شخص جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے۔
گولہ ایک ہوٹل پر بھی لگا جب کہ توپ خانے کے حملے میں شہر کی نیٹو مارکیٹ کو بھی نقصان پہنچا اور کئی دکانوں میں آگ لگی۔
چمن کے علاقے کلی شیخ لال خان میں بھی مارٹر گولے کچھ مکانات پر گرے جس کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ گولہ باری سے کچھ دوسرے مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔ چمن میں سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ عبداللہ کندک کے علاقے میں افغان فورسز نے چمن میں شہری بستیوں کو نشانہ بنایا۔
29 سالہ مزدور نجیب اللہ نے بتایا کہ اس کے گھر پر اس وقت حملہ ہوا جب افغان فورسز نے گولہ باری شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ میرے بہت سے رشتہ دار جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، زخمی ہوئے۔
نجیب اللہ بہت مایوس اور گھبرایا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب بچے باہر جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کوئی انہیں مار ڈالے گا۔ ہمارے خاندان کا ہر فرد ذہنی اذیت سے دوچار ہے۔
ایک اور متاثرہ 45 سالہ عزیز اللہ نے کہا کہ طالبان فورسز بھاری ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔
عزیز اللہ کے چار ساتھی پاکستانی فرنٹیئر کور کے قلعے میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے کہا “یہ ایک عام دن تھا اور اچانک شہر ایک میدانِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ ہم نے اور ہمارے بچوں نے بہت کچھ دیکھا ہے”۔
50 سالہ عبدل نے بتایا کہ وہ ایک گلی میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی۔ انہوں نے کہا “میں زمین پر گر گیا اور میرے چہرے اور جسم پر کئی زخم آئے”۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغان فورسز نے چمن میں شہری آبادی پر بلا اشتعال اور اندھا دھند فائرنگ شروع کی، بھاری ہتھیاروں اور مارٹر گولوں کا استعمال کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی سرحدی دستوں نے جارحیت کا مناسب جواب دیا لیکن معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔
انٹر سروس پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے کہا ” پاکستان خطے میں امن کے لیے تمام سفارتی ذرائع استعمال کر رہا ہے۔ اس نے صورتحال کی سنگینی کو اجاگر کرنے کے لیے کابل میں افغان حکام سے بھی رابطہ کیا ہے اور مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تکرار کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے”۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران سرحدی گزرگاہ کو گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔افغانستان اور پاکستان دونوں کے سرحدی شہر ذریعہ معاش کے لیے تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
سرحد کی بندش کے بعد تاجروں کا نقصان ہونا شروع ہو گیا اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے اور خدشہ ہے کہ اگر پاکستانی اور افغان حکام کے درمیان تنازعہ فوری طور پر حل نہ ہوا تو ان کے اہل خانہ کو فاقہ کشی کی نوبت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
دونوں اطراف سے سامان لے جانے والے ٹرکوں اور کنٹینرز کو فورسز نے روک لیا جس سے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر حاجی آغا گل خلجی نے کہا کہ جب تجارت بند ہوئی تو سرحد کے دونوں طرف مہنگائی میں اضافہ ہوگیا۔
انہوں نے کہا ” سرحدوں کی بندش کے بعد دونوں ممالک کی آمدنی بند ہوگئی اور سرحد کے دونوں جانب پھلوں، سبزیوں اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں”۔
حاجی آغا گل خلجی نے کہا کہ تاجر چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کریں۔ انہوں نے کہا “ہمارا مطالبہ تھا کہ تجارت اور لوگوں کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے چاہے حالات کچھ بھی ہوں”۔
اس صورتحال میں چمن کے قبائلی عمائدین، مذہبی اسکالرز اور تاجروں پر مشتمل ایک 16 رکنی مصالحتی جرگہ طالبان قیادت سے مذاکرات کے لیے افغانستان بھیجا گیا۔
جرگے کو پاکستانی حکومت اور فوجی حکام کی حمایت اور اختیار حاصل تھا۔
جرگہ ایک صدیوں پرانا روایتی قبائلی اجتماع ہے جس میں قبائل کے درمیان تنازعات کو بزرگ افراد تمام قبائلیوں کی موجودگی میں سنتے اور حل کرتے ہیں۔
جرگے کے ارکان نے قندھار کے گورنر حاجی محمد وفا اور افغان وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس سروس کے حکام سے ملاقات کی اور آخر کار سرحدی کشیدگی کو کم کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
20 دسمبر کو وطن واپسی جرگے کے ایک رکن نے کہا “ہم کامیاب مذاکرات کے بعد واپس آئے ہیں”۔
بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار نے بھی کہا “چمن سرحد پر پاکستان اور افغانستان کی سرحدی افواج کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے جرگے کی کوششیں کامیاب رہیں”۔
جرگے کے ایک رکن اور قبائلی رہنما عبدالخالق اچکزئی نے کہا کہ انہیں افغانستان سے مثبت پیغام ملا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سرحدی صورتحال جلد معمول پر آجائے گی۔ انہوں نے کہا “جنگ کوئی حل نہیں، اس سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی”۔
جرگے کے ارکان کی واپسی کے بعد فلیگ میٹنگ ہوئی جس میں چمن اور اسپن بولدک کے ڈپٹی کمشنرز سمیت دونوں ممالک کے اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔
ملاقات میں فریقین نے سرحدی مسائل کو تشدد کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے رابطے بڑھانے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا۔
اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے کہا “اگر باڑ پر کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے رابطہ قائم کرکے اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کریں گے”۔
اجلاس میں تعطل کے خاتمے میں مقامی قبائلی عمائدین اور علمائے کرام کے کلیدی کردار کو سراہا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قبائلی عمائدین، علمائے کرام اور تاجر امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ غلط فہمیوں اور تصادم کے امکان کو دور کرنے کے لیے دونوں ممالک کے سول ملٹری وفود ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کریں گے۔
اس موقع پر افغان وفد نے پاکستانی عوام اور افواج کی افغانستان کے عوام کے لیے قربانیوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی۔
پاکستانی وفد نے افغان سول اور فوجی حکام کو روایتی پشتون پگڑیاں بھی پیش کیں۔ دونوں اطراف کے سول اور فوجی حکام ایک دوسرے سے گلے بھی ملے۔
اس سے قبل 17 دسمبر کو ہونے والی فلیگ میٹنگ ملتوی کر دی گئی تھی۔
چمن میں تعینات ایک سیکیورٹی اہلکار نے بول نیوز کو بتایا ” افغان حکام کی صفوں میں یکسانیت نہ ہونے کی وجہ سے فلیگ میٹنگ ملتوی کی گئی تھی۔ وہ وحشیانہ طاقت کے استعمال یا مذاکرات کرنے کے سوال پر منقسم تھے”۔
دونوں ممالک کے مابین اسپن بولدک میں اعلیٰ سطح پر مذاکرات اور اعتماد کی بحالی کے حوالے سے مقامی سطح پر بات چیت جاری تھی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں فلیگ میٹنگ میں کسی نتیجے کی توقع نہیں تھی کیونکہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغان سرحدی حکام کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حالات معمول پر نہیں آرہے تھے۔
چمن کے لوگوں کو اُمید ہے کہ جرگے کے ارکان افغان اور پاکستانی افواج کے درمیان خونریز جھڑپوں کو مستقل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مقامی سیاسی جماعتوں اور تاجروں نے کہا کہ افغان سرحد پر حالات معمول پر لانے میں غیر سرکاری وفد ہمیشہ بہتر اور زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔
جھڑپیں دیگر مسائل کو اجاگر کرتی ہیں
چمن ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر رشید ترین نے بول نیوز کو بتایا ” )جھڑپوں کے نتیجے میں( ہمیں چھ لاشیں موصول ہوئیں۔ یہ لوگ مارٹر اور توپ خانے کے گولوں سے مارے گئے”۔
انہوں نے کہا ” 17 زخمیوں کو بھی چمن اسپتال لایا گیا اور ہم نے شدید زخمیوں کو کوئٹہ بھیج دیا”۔
چمن کا ہسپتال ناقص ہے اور بمباری اور گولیوں کے زخمیوں کے علاج کے لیے تمام ضروری وسائل کا فقدان ہے۔ تاہم طبی ماہرین نے متاثرین کے علاج کے لیے ہر وسائل کا استعمال کیا۔
علاقے کے لوگ ہمیشہ چمن کے ہسپتالوں میں سہولیات کے فقدان کی شکایت کرتے ہیں۔
چمن کے رہائشی 50 سالہ عبدل نے بتایا ” یہ جنگ زدہ افغانستان سے متصل ایک قصبہ ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے بھی ڈاکٹرز اور طبیب نہیں جو شدید زخمیوں کا علاج کر سکیں؟”۔
انہوں نے کہا “یہاں شدید زخمی ہونے کا مطلب ہے کہ آپ مرچکے ہیں”۔
بلوچستان بھر میں صحت کی مناسب سہولیات کے فقدان کے بارے میں ایسی ہی شکایات ہیں جہاں زیادہ تر ہسپتالوں کے پاس گولیوں سے زخمی ہونے والے مریضوں کے علاج کے لیے بنیادی وسائل نہیں ہیں۔
سرکاری ردعمل
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال حملے کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے متاثرین کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صورتحال کا حل تلاش کرنے کے لیے اس معاملے کو وفاقی سطح پر اٹھایا ہے۔
انہوں نے سیکرٹری صحت کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ چمن کی ضلعی انتظامیہ بھی متاثرین کی مدد کرے۔
کور کمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے چمن کا دورہ کیا اور سرحدی حکام سے ملاقات میں سرحد کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
سینئر سیکیورٹی حکام نے انہیں افغان فورسز کی جارحیت اور گولہ باری کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے سرحد کے ساتھ رہنے والے مختلف قبائل کے عمائدین، تاجروں، علمائے کرام اور دیگر لوگوں سے بھی ملاقات کی۔
لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے افغان فورسز کی گولہ باری میں جان و مال کے نقصان پر دکھ اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جب کہ شہداء اور زخمیوں کے لواحقین کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کی جانب سے جارحیت کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کیے جائیں۔
کور کمانڈر نے کہا کہ “کسی کو اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ چمن یا اسپن بولدک میں نقصانات ہوئے،” انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے پہلے حملہ نہیں کیا اور آئندہ بھی نہیں کرے گا لیکن اگر جسمانی طور پر یا دوسری صورت میں چمن کے لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا تو تحمل کا مظاہرہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔
’’ہم اپنے شہریوں کا ہر قیمت پر تحفظ اور دفاع کریں گے۔‘‘ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے کہا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے سرحد کے دونوں جانب قبائلی عمائدین کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔
سول اور عسکری قیادت مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاہم مقامی ماہرین کو تشویش ہے کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے کیونکہ ایک فریق سرحد پر باڑ لگانا چاہتا ہے جب کہ دوسرا ایسا نہیں کرتا۔
مقامی صحافیوں کے مطابق پاکستان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ یہ ہے کہ طالبان فورسز کی مناسب فوجی تربیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بموں اور گولیوں سے زیادہ تر شہری بستیاں نشانہ بنتی ہیں جب کہ دوسری طرف افغان میں عام شہریوں کی ہلاکتیں کم ہیں۔
چمن کے لوگ اور سرحد کے اس پار افغانستان کے لوگ ایک ہی ثقافت اور زبان کا حصہ ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف اُن کے رشتہ دار بستے ہیں۔
ایک مقامی رپورٹر نے کہا “وہ ہمیشہ امن اور تشدد کے خاتمے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکام کے بجائے مقامی لوگوں پر مشتمل جرگے کی تشکیل کو بھی سراہا”۔
باڑ لگانے کا مسئلہ
کچھ مقامی لوگوں کے مطابق افغان طالبان پاکستان کے ساتھ سرحد پر باڑ نہیں چاہتے کیونکہ افغانستان کے لوگ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے جو کہ 1893ء میں برصغیر پاک و ہند اور امارات اسلامیہ افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے طور پر قائم ہوئی تھی۔
محکمہ داخلہ اور قبائلی امور بلوچستان کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ افغانستان سے اسمگلرز بھی پاکستان میں داخل ہونے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان باڑ کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی فورسز کسی بھی شخص کو بغیر امیگریشن کے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گی۔
انہوں نے کہا “وہ مفت داخلہ چاہتے ہیں جس سے اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاروبار کو ہوا ملے گی۔ اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم طالبان کے ساتھ مل کر علاقے میں امن قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ کابل حکومت نے واقعے پر معذرت کی ہے اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جو ایک اچھی علامت ہے اور اس سے پائیدار امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News