
عمران خان پر توشہ خانہ لوٹنے کا الزام لگانے والے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)
کے قائدین اپنے خلاف اسی طرح کے ریفرنس سے کیوں گریزاں ہیں
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے قائدین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر توشہ خانہ کے تحائف کا “غلط استعمال” کرنے پر شدید تنقید کر رہے ہیں جب کہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ وہ خود اپنے دورِ اقتدار میں اسی طرح کے تحائف کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں اور اب عدالتوں کے ساتھ ساتھ قومی احتساب بیورو (نیب) سے اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔
حال ہی میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے خلاف نیب کی جانب سے دائر توشہ خانہ ریفرنس کو واپس بھیج دیا جب ان رہنماؤں نے نیب آرڈیننس کی حالیہ ترامیم کی روشنی میں ان مقدمات کو منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی۔
ان درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ترمیم شدہ احتساب قوانین کے تحت 500 ملین روپے سے کم کے کرپشن الزامات کی سماعت احتساب عدالتیں نہیں کر سکتی۔
چونکہ آصف زرداری، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف مقدمات کی رقم 110 ملین روپے کے برابر یا اس سے کم ہے، احتساب عدالت کے جج کی جانب سے یہ فیصلہ دیا گیا کہ توشہ خانہ ریفرنس کو ’’استغاثہ کے لیے متعلقہ حکام‘‘ کو بھیجا جائے۔
توشہ خانہ ایک وفاقی محکمہ ہے جو دوسرے ممالک کی طرف سے پاکستانی سربراہانِ مملکت اور حکومت کو دیئے گئے تحائف کو ذخیرہ کرتا ہے۔ وصول کنندہ مخصوص طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اور متعلقہ اشیاء کی مارکیٹ قیمت کا ایک خاص فیصد ادا کرکے ذاتی استعمال کے لیے توشہ خانہ سے ان تحائف کو خرید سکتا ہے۔
مارچ 2020ء میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں دائر کیے گئے ریفرنسز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر توشہ خانہ سے گاڑیاں رکھنے اور بے نامی (جعلی یا ناقابلِ شناخت) اکاؤنٹس سے اُن کی قیمت کے طور پر 110 ملین روپے ادا کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
مذکورہ تینوں رہنماؤں کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ اس کے علاوہ اومنی گروپ کے مالکان خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری خزانے سے مبینہ طور پر تین گاڑیاں خریدیں، ایک 2004ء ماڈل بی ایم ڈبلیو 750 Long Injected (LI) اور 2007ء ماڈل کی ٹویوٹا لیکسس جیپ 472 دونوں متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفے میں دی گئیں جب کہ 2008ء ماڈل کی بی ایم ڈبلیو 760 LI لیبیا کی طرف سے تحفے میں دی گئی۔
ریفرنس کے مطابق سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے توشہ خانہ سے گاڑیاں مارکیٹ ویلیو کا 15 فیصد ادا کرکے حاصل کیں۔ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم گیلانی نے خودمختار تحائف کی قبولیت اور تصرف کے لیے غیر قانونی طور پر قوانین میں نرمی کر کے توشہ خانہ سے یہ گاڑیاں حاصل کرنے میں دونوں رہنماؤں کو سہولت فراہم کی۔قواعد کے مطابق ’’تحفے میں دی گئی گاڑیاں وصول کنندگان کو خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی اور انہیں کابینہ ڈویژن کے کاروں کے سینٹرل پول کو دیا جائے گا۔‘‘
نیب نے مزید دعویٰ کیا کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں منگوانے میں سہولت فراہم کی حالانکہ وہ حکومت میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے تھے۔
مئی 2020ء میں جب سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیش نہ ہو سکے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ بعد ازاں ستمبر میں کیس کے تینوں مدعا علیہان کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ اکتوبر میں عدالت نے نواز شریف کو کیس میں مفرور قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔
گفٹ ڈپازٹری قوانین کے مطابق صدر اور وزرائے اعظم کو دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروانا ہوتا ہے کیونکہ یہ تحائف ریاست کی ملکیت ہیں اور انہیں صرف کھلی نیلامی میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔
قواعد حکام کو ان تحائف میں سے کسی کو بھی اپنے پاس رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں 10 ہزار روپے سے کم کی قدر والی اشیاء وصول کنندہ متعلقہ ریاستی ملازم کے ذریعے بغیر کچھ ادا کیے لے سکتا ہے۔ مارکیٹ کی زائد قدر اشیاء کو مارکیٹ کی قیمت کے مختلف فیصد پر حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ قواعد میں بتایا گیا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News