Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

پسندیدہ بیوروکریٹس کا عروج

Now Reading:

پسندیدہ بیوروکریٹس کا عروج

انکوائری سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکم ران کس طرح بیوروکریٹس کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں

بدعنوانی اور جرائم میں ملوث پائے جانے والے اعلیٰ بیوروکریٹس کی جبری ریٹائرمنٹ اور بعدازاں جواب دہی کے خطرے کا خاتمہ دیگر چیزوں کے علاوہ سال 2022 ء کی پہچان بنا۔ یہ مئی میں ہوا جب شہباز شریف حکومت کے تحت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سول سرونٹس رولز 2020 ء کو منسوخ کردیا۔

ان قوانین کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے 2020 ء میں نافذ کیا تھا اور ان سرکاری ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ ممکن ہوگئی تھی جو بدعنوانی کے مرتکب پائے گئے تھے، یا جنہوں نے تحقیقاتی ایجنسی کے ساتھ پلی بارگین کیا یا جن کا رویہ غیر مناسب تھا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پسندیدہ بیوروکریٹس کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس قانون کو منسوخ کیا، جن میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ، امداد اللہ بوسل، محمد خان بھٹی، سارہ سعید اور دیگر شامل ہیں، جنہیں بعد ازاں ، پچھلے قانون کے تحت اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کے ذریعے ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے ایک دن قبل گریڈ 22 میں ترقی دی گئی۔

تاہم حزب اختلاف کے حلقوں کا خیال ہے کہ جیسے ہی پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، پسندیدہ بیوروکریٹس کو پروموٹ کرنے کی اقربا پروری پالیسی کا خاتمہ ہو جائے گا اور ڈاکٹر توقیر شاہ اور محمد خان بھٹی جیسے عہدے دار اس قابل نہیں ہوں گے کہ اعلی ترین عہدوں پر برقرار رہ سکیں۔

Advertisement

پی ٹی آئی کے ہمدرد ایک بیوروکریٹ کا کہنا تھا،’’ہمیں امید ہے کہ ہمارے مرکز اور صوبہ پنجاب دونوں میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد ، (موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب) چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے اتحادی عمران خان کو مکمل طور پر میرٹ پر بیوروکریٹس کی تعیناتی سے نہیں روک سکیں گے، جیسا کہ انہوں نے اپنی پچھلی مدت کے دوران میرٹ پر افسران مقرر کیے تھے۔‘‘

پنجاب میں غیر معمولی تقرریاں

ایک سینئر بیوروکریٹ جو اس وقت پنجاب میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نے الزام لگایا کہ محمد خان بھٹی اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے صوبے میں قابل اعتراض تبادلوں اور تعیناتیوں کا حکم دے کر بھاری رشوت لےرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے 27 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد انہوں نے بڑی تعداد میں تبادلے اور تقرریوں کو احکامات جاری کیے۔ 30 جولائی کو پانچ ڈپٹی کمشنرز، دو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور گریڈ 18 کے ایک ڈپٹی سیکرٹری، گریڈ 19 کے ایک او ایس ڈی، ایک گریڈ 20 کے افسر  گریڈ 21 کے ایک سیکریٹری اور دو ایڈیشنل چیف سیکریٹریوں کی تقرریوں اور تبادلے کے احکامات جاری کیے۔

ایک دن بعد، 31 جولائی کو گریڈ 20 کے 7 پولیس (PSP) افسران کا تبادلہ کر دیا گیا۔ یکم اگست کو مزید تبادلوں کے احکامات دیے گئے۔ تبادلہ ہونے والے افسران میں گریڈ 17کا ایک افسر، دو ڈپٹی سیکرٹریز، ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور گریڈ 18 کے پانچ ڈپٹی کمشنرز، ایک ایڈیشنل سیکرٹری، اور ایک اسپیشل سیکرٹری کے ساتھ ساتھ ایک ڈائریکٹر اور لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے گریڈ 19 کے ڈائریکٹر جنرل شامل تھے۔

Advertisement

گریڈ 19 کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری اور گریڈ 18 کے دو ڈپٹی سیکرٹریز کا دو اگست کو تبادلہ کیا گیا، جبکہ گرید 18 کے ایک او ایس ڈی کو 4 اگست، جب کہ گریڈ 18 ہی کے ایک دوسرے او ایس ڈی کو 05 اگست کو تعینات کیا گیا۔

ایک ڈپٹی کمشنر نے بول نیوز کو بتایا،’’یہ تبادلے اور تعیناتیاں جن کا حکم ایک ہفتے کے اندر دیا گیا تھا، وہ پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے پورے تین سالہ دور اور ان کے جانشین حمزہ شہباز شریف کے تین ماہ کے دور اقتدار سے کم از کم د گنا ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں ہونے والی ان تقرریوں کے پس پردہ محمد خان بھٹی تھے ، اور وہ تقرریوں کے عوض بھاری رشوت لیتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اس بارے میں عوامی سطح پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ محمد خان بھٹی پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی ساتھی ہیں اور اس وقت بہت طاقت ور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات ان کے وزیراعلی کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے سے سبکدوش یا وزیراعلیٰ کے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد ہی ہوسکتی ہیں۔

بول نیوز نے محمد خان بھٹی سے ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔ تاہم وزیراعلیٰ پنجاب کے ایک معاون سلمان ظفر چوہدری نے ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک راست باز افسر ہیں اور ان کی کرپشن کے بارے میں افواہیں سیاسی مخالفین نے چوہدری پرویز الٰہی کو بدنام کرنے کے لیے پھیلائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر کسی کے پاس بھٹی کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لائے اور شکایت درج کرائے۔‘‘

تاہم، ایک سینئر بیوروکریٹ بتاتے ہیں کہ بھٹی ماضی میں چوہدری مونس الٰہی کے ساتھ منی لانڈرنگ کیس میں زیر تفتیش تھے۔ اس مقدمے میں مونس الٰہی کے ساتھیوں میں محمد خان بھٹی کے دو بھتیجے ساجد بھٹی اور واجد بھٹی شامل تھے۔ ساجد بھٹی اس وقت پنجاب میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، اور صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے اکتوبر میں کیس کو عدم ثبوت کی بنا پر خارج کر دیا تھا۔

Advertisement

محمد خان بھٹی کا عروج

محمد خان بھٹی کا کیریئر 1990 ء کی دہائی میں شروع ہوا جب ان کے بھائی احمد خان بھٹی گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ وہ 1995ء میں یونین کونسل حکومت کے حصے کے طور پر گریڈ 7 کے افسر کے طور پر اس وقت تعینات ہوئے جب چوہدری پرویز الٰہی متعلقہ یونین کونسل کے چیئرمین تھے۔ 1997 ء میں کیریئر میں غیر معمولی ترقی دے کر انہیں گریڈ 19 میں پنجاب اسمبلی میں تعینات کردیا گیا۔ ذرائع کا الزام ہے کہ پرویز الٰہی نے لاہور میں محمدخان بھٹی کے لیے چار کنال کا گھر بنانے کے لیے عوامی فنڈز کا استعمال کیا۔ گھر 2007 ء سے ان کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔

جب محمد خان بھٹی کے خلاف 2008 ء میں بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے تو انہیں اسمبلی کے اسپیکر رانا اقبال نے صوبائی اسمبلی میں ان کی تعیناتی سے فارغ کر دیا۔ تاہم، انہیں لاہور ہائی کورٹ نے بری کر دیا اور 2018 ء میں جب چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر مقرر کیا گیا تو وہ اسمبلی میں واپس آئے۔ انہیں اسپیکر کے سیکرٹری کے طور پر تعینات کیا گیا اور گریڈ 22 میں ترقی دی گئی، جو سول سروس کا سب سے بڑا گریڈ ہے۔

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی سے محمد خان بھٹی کے روابط صرف سرکاری ملازمت تک محدود نہیں ہیں۔ 2008 ء میں پنجاب اسمبلی سے برطرفی کے بعد انہیں پرویز الٰہی کا پولیٹیکل سیکریٹری مقرر کیا گیا اور انہوں نے چوہدری پرویز الہی کے خاندان کے مالی معاملات میں بھی کردار ادا کیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ان پر چوہدریوں کی رحیم یار شوگر مل سے منسلک منی لانڈرنگ کیس میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔

رحیم یار شوگر مل کی بنیاد قاسم نواز بھٹی اور مظہر عباسی نے 2007 ء میں رکھی تھی۔ مل کے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کی درخواست سابق وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار نے جمع کرائی تھی، جسے چوہدری پرویز الٰہی نے فوری طور پر منظور کر لیا، جو اس وقت وزیراعلیٰ تھے۔

Advertisement

تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منصوبے میں قاسم نواز کا حصہ 31 فیصد جبکہ مظہر عباسی کا حصہ 35 فیصد ظاہر کیا گیا۔ تاہم، 2008 ء میں سرمایہ کاری کی مالیت بڑھ کر 720 ملین روپے تک پہنچ گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اضافی اثاثوں کا ذریعہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ قاسم اور مظہر دونوں نے 2011-14 کے دوران اپنے حصص فروخت کیے، اس طرح کے لین دین کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔

کئی ہاتھ بدلنے کے بعد، کمپنی کے 34 فیصد حصص دو آف شور کمپنیوں نے خریدے تھے جن کے نام CasketTech Private Limited اور XCapital Private Limited تھے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق یہ دونوں کمپنیاں چوہدری پرویز الٰہی کی ملکیت ہیں جن میں واجد بھٹی کا 10 فیصد حصہ ہے جن کے بھائی ساجد بھٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے موجودہ چیئرمین ہیں۔

مزید یہ کہ مخدوم عمر شہریار جن کے بھائی خسرو بختیار جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر تھے اور ان کے داماد طارق جاوید کے بھی شوگر مل میں 2020 ء تک 31 فیصد حصص تھے۔

ایف آئی اے کو شبہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی شوگر مل کے قیام کے لیے اپنے حصے کی فنڈنگ کو چھپانے کے لیے دوسرے لوگوں کا ستعمال کرتے رہے ہیں۔

لہٰذا، جب کہ محمد خان بھٹی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ خارج ہو چکا ہے اور وہ شاید اس لمحے ہوائوں میں اڑ رہے ہوں گے، تاہم اس بات کا امکان بہرحال موجود ہے کہ ایک بار پھر وہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد احتساب کے نگراں ادارے کے ریڈار پر آجائیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
میلانیا ٹرمپ اور پیوٹن میں رابطے بڑھنے لگے ، ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار
ماریا کورینا نے اپنا نوبیل امن ایوارڈ صدر ٹرمپ کے نام کردیا
ٹرمپ نوبیل امن انعام 2025 کےلئے ماریا کورینا سے زیادہ مستحق تھے، ترجمان وائٹ ہاؤس کی فیصلے پر تنقید
سانول عیسیٰ خیلوی نے والد عطااللہ خان کے ساتھ ’’تھیواہ‘‘ کا نیا ورژن ریلیز کردیا
’’پاکستان زندہ باد رہے گا‘‘ شہدا کے ذکر پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا لہجہ گلوگیر مگر پیغام واضح
وزیر اعظم کے دورہ ملائیشیا کے دوران کئی اہم معاہدوں پر بات چیت ہوئی، ترجمان دفتر خارجہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر