
مکران ڈویژن کے کمشنر سید فیصل احمد کا انٹرویو
کوئٹہ
چین کے اربوں ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈاقدام (بی آر آئی) کے اہم مرکز، گوادر میں زندگی گزشتہ ماہ ایک مشتعل احتجاج کے آغاز کے بعد سے رک گئی ہے۔ بلوچستان سے جماعت اسلامی کے سرگرم رہنما مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نومبر 2021ء میں مولانا کی ’حق دو‘ تحریک اور عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں حکومت بلوچستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حال ہی میں ساحلی شہر میں ضلعی حکام کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد احتجاج پُرتشدد ہو گیا۔ اس پس منظر میں بول نیوز نے مکران ڈویژن کے کمشنر سید فیصل احمد سے یہ جاننے کے لیے انٹرویو کیا کہ حکام احتجاج کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے کس طرح کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
س
گوادر کے لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ اوریہ احتجاج اب پُرتشدد کیوں ہو گیا ہے؟
جواب: پاکستان کے تمام شہریوں بشمول ’حق دو‘ تحریک کی قیادت کرنے والوں کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے۔ تاہم، جب کوئی احتجاج دوسرے شہریوں کے آئینی حقوق جیسے نقل و حرکت کی آزادی اور زندگی کا حق متاثر کرنے لگتا ہے تو ریاست کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ گوادر میں جاری احتجاجی مظاہرے کے شرکاء نے بندرگاہ کا محاصرہ کر کے وہاں کام کرنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی تھی۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کے خلاف حکام کو مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنی پڑی۔
س
مظاہرین کا ایک مطالبہ سندھ سے مچھلی پکڑنے والے ٹرالروں پر پابندی عائد کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک ٹرالر مافیا کام کر رہا ہے، جس نے گوادر کے ماہی گیروں کو روزگار سے محروم کر رکھا ہے۔ کیا اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟
جواب : غیر قانونی ٹرالر بلوچستان کے پانیوں میں داخل ہوتے ہیں لیکن وہ بہت چالاکی اور خفیہ طریقے سے ایسا کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ پکڑے جاتے ہیں تو انہیں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں کہ کراچی سے آنے والے ٹرالر کے ایک ٹرپ پر تقریباً 60 سے 70 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور گشت پر موجود ہماری ٹیموں کی جانب سے پکڑے جانے کا ہمیشہ امکان رہتا ہے۔ ہم غیر قانونی ٹرالروں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور ہم مشترکہ پٹرولنگ کرتے ہوئے ماہی گیر برادری کا تعاون چاہتے ہیں۔ ہمیں پولیس سمیت تمام سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ہم نے 40 غیر قانونی ٹرالروں کے خلاف مقدمات درج کرائے ہیں اور سندھ حکومت کو مزید 100 ٹرالروں کے خلاف کارروائی کے لیے لکھا ہے۔ ان میں سے 50 ٹرالروں پر جرمانے عائد کرکے ان کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
س
حکام کچھ دن پہلے احتجاجی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے۔ انہوں نے اچانک بھرپور طاقت استعمال کر کے کیمپ کیوں ہٹانا شروع کر دیا؟
جواب: گوادر کے عوام کی اکثریت جاری احتجاج میں شامل نہیں ہے۔ ماہی گیری ایک اربوں ڈالر کی صنعت ہے اور پوری دنیا اور گوادر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سے وابستہ ہے۔ گوادر میں ایک یونیورسٹی ہے، ایک کالج ہے اور اورماڑہ میں ایک کیڈٹ کالج ہے۔ بندرگاہی شہر کے لوگ پڑھنا اور کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں امن کی ضرورت ہے۔
س
گوادر کا احتجاج ملک کی منفی تصویر کشی کر رہا ہے۔ خواتین بھی اس میں حصہ لے رہی ہیں۔ کیا خواتین کے گھروں میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں؟
جواب: احتجاج میں نوجوان اور خواتین شریک ہیں۔ کچھ خواتین نے میری گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا لیکن ہم نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہم صرف ایک پرامن ماحول چاہتے ہیں جہاں لوگ اپنے کاروبار کر سکیں اور طلباء اپنے اسکول، کالج اور یونیورسٹی جا سکیں۔ ہم مظاہرین کو حکومتی املاک، لوگوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچانے اور حملوں کے لیے خواتین کو آڑ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
س
مولانا ہدایت کے ساتھ مذاکرات کیوں کامیاب نہیں ہوئے؟
جواب: احتجاجی لیڈر کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے تھے لیکن بعد میں مولانا صاحب نے ہر نئی میٹنگ میں ایک نیا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے 2020ء میں دھرنا دیا تھا تو ان کے 17 مطالبات تھے۔ اب ان کے 40 مطالبات ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ احتجاج کا مقصد کیا ہے؟ حکومت کو لگتا ہے کہ وہ لوگوں اور خواتین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News