
حافظ عبدالمجید سیکرٹری کالجز اینڈ ہائرایجوکیشن بلوچستان کا انٹرویو
حافظ عبدالمجید، جو اس وقت بلوچستان میں سیکریٹری کالجزاورہائرایجوکیشن کے طور پرخدمات سرانجام دے رہے ہیں، نے بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرزاوریونیورسٹی آف میلبورن سے پبلک پالیسی اورمینجمنٹ میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔ بیوروکریٹ کے طور پران کا کیریئر 21 سال پرمحیط ہے، جس کے دوران مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیں۔ اس انٹرویو میں عبدالمجید ملک کے پسماندہ ترین صوبے میں تعلیم کی حالت پربات کررہے ہیں۔
س
آپ نے’’اپنے لوگوں کی خدمت کرو‘‘ مہم شروع کی ہے۔ اس کے پس منظر میں کیا تصور تھا؟
حافظ عبدالمجید: صحت، تعلیم اور پانی جیسے ہمارے خدمات کی فراہمی کے شعبے بظاہر تباہ ہو گئے ہیں۔ محکمہ صحت کی کارکردگی سے کوئی بھی مطمئن نہیں۔ جب ہم اسکولوں کی بات کرتے ہیں تو وہاں بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ ہم نے اساتذہ کی تقرری کردی لیکن کوئی دیہی علاقوں میں جا کرپڑھانے کو تیار نہیں۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے 20 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اورانہیں تعلیم نہیں مل رہی جوکہ نظام کی ناکامی ہے۔ تعلیمی بورڈ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اندازہ کریں۔ وہ معیاری نہیں ہیں. دیگر صوبوں کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے طلباء کے لیے 900 مخصوص نشستیں ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبے کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم 1لاکھ بچوں میں سے 900 بھی انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں 50 فیصد نمبرحاصل نہیں کرپاتے۔ یہ ہمارے نظام کی تباہی کی علامت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کوئی اقدام نہ کیا تو ہمارے صوبے کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
س
اعلیٰ تعلیم کی بات کی جائے تو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں لاتعداد ڈگری کالجز ہیں، لیکن وہاں اساتذہ نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بچے کوئٹہ میں تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں کتنے اساتذہ ہیں، جن کے تبادلے اورتقرریاں کی گئیں؟
حافظ عبدالمجید: ہمارے پاس سفارش کا کلچرہے، جو نظام کونقصان پہنچا رہا ہے۔ ہمارے صوبے میں 150 کالجز ہیں، جن میں انٹرمیڈیٹ اورڈگری کالج دونوں شامل ہیں۔ صوبے میں تعلیم پر 65 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اوراس رقم میں یونیورسٹیوں پر اٹھنے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ تاہم اس خرچ کے باوجود تعلیمی نظام تباہی کا شکار ہے۔ بہت سے سرکاری اساتذہ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنا تبادلہ کوئٹہ کروالیتے ہیں۔ کوئٹہ واحد ضلع ہے، جہاں کالج ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ تاہم، دیگراضلاع میں صورتحال ابترہے۔ اسی پس منظرمیں ہم نے یہ’اپنے لوگوں کی خدمت کرو‘ مہم شروع کی ہے۔ مہم اس بات پرزوردیتی ہے کہ اساتذہ کوئٹہ جانے کی بجائے اپنے آبائی اضلاع میں واپس جائیں اوروہاں کے بچوں کو تعلیم دیں۔ بلوچستان کے ایک باشندے کے طور پر،میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم سب کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ لیکچررز سے بھی درخواست ہے کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں تاکہ ہم دوسرے اضلاع کے کالجوں کو بھی تعلیمی اداروں میں تبدیل کرسکیں۔
س
ڈگری کالجوں کے لیکچررزکا کئی دہائیوں سے تبادلہ نہیں کیا گیا۔ ایک مثال ڈگری گرلزکالج کوئٹہ کینٹ اورگرلز ڈگری کالج جناح ٹاؤن کوئٹہ ہے، جن کے لیکچررزکا دیگر کالجوں میں ٹرانسفر نہیں کیا جاتا۔اس کی کیا وجہ ہے؟
حافظ عبدالمجید: ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ ہم نے ابھی مہم شروع کی ہے اوریہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمیں بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنے تبادلے کے خلاف عدالت سے رجوع کررہے ہیں اورکچھ احتجاج کررہے ہیں۔ تاہم، ہم اساتذہ کو ان کے آبائی علاقوں میں فرائض سرانجام دینے کی پالیسی پرعمل درآمد کریں گے۔ گریڈ 19 کے اساتذہ کو اس اصول سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن لیکچررز کو اپنے ہی اضلاع میں پڑھانا ہوگا۔
س
جیسا کہ آپ نے بتایا کہ بلوچستان کے طلباء کو دیگرصوبوں کی یونیورسٹیوں میں 900 وظائف دیے جارہے ہیں۔ کیا دوردراز کے اضلاع کے طلباء ان وظائف سے واقف ہیں؟ ہائرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اس سلسلے میں کیا کام کررہا ہے؟
حافظ عبدالمجید: طلباء جو اپنے کالجوں میں کلاسوں میں شرکت کرتے ہیں، انہیں بھی وظائف کے بارے میں علم ہوتا ہے۔ طلباء کے درمیان مقابلے کی فضا ان کی تعلیمی قابلیت میں اضافے میں مدد کرسکتی ہے۔ تاہم، ہمارے اکثرکالج فعال نہیں ہیں۔ طلباء کلاسزمیں شرکت نہیں کرتے یا دیگر سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنتے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنی مہم کے ذریعے کالجوں کو فعال بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 900 وظائف کےعلاوہ بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ بھی ہے، جس کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان نے مزید 4 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس سے ہمارے طلباء کو تعلیمی مواقع میسر آئیں گے۔ ذہین طلباء کو ایچ ای سی کے تحت وظائف بھی دیئے جائیں گے۔
س
کیا اساتذہ کی ترقی کے معیارمیں تبدیلی نہیں کی جانی چاہیے؟ کیا اساتذہ کوسنیارٹی کی بجائے مہارت کی بنیاد پرترقی نہیں دی جانی چاہیے؟
حافظ عبدالمجید: اہل افراد کے لیے مواقع موجود ہیں۔ اگر کوئی لیکچرارایم فل یا پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے، تو اسے موقع دیا جاتا ہے۔ ایسے اساتذہ گریڈ 20 تک آگے جا سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے سے پی ایچ ڈی کرچکے ہیں، ان کا براہ راست گریڈ 20 میں تقررکیا جاتا ہے۔ یہ کالجوں میں اساتذہ کے لیے تحریک کا کام کرے گا۔
س
بلوچستان تعلیمی بورڈ کو ڈیجیٹلائزکرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ مکران ریجن کے لیے الگ بورڈ بنایا جائے کیونکہ مکران میں انٹرنیٹ سروس بہت سست ہے اورطلبہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
حافظ عبدالمجید: بالکل، ہم چاہتے ہیں کہ ڈیجیٹلائزیشن خود مختارعلاقائی بورڈزکی شکل میں ہو۔ ہم فی الحال شاخیں قائم کررہے ہیں، جس میں کچھ سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ لیکن یہ شاخیں طلباء کو 100فیصد سہولیات فراہم نہیں کریں گی۔ ہم نے علاقائی بورڈزکی تشکیل کی تجویزپیش کی تھی لیکن مالی مجبوریوں کی وجہ سے اسے منظور نہیں کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن (BPSC) کی شاخیں بھی ہر ڈویژن میں قائم ہونی چاہئیں۔ تعلیمی اداروں میں ملازمتوں کے ہزاروں مواقع موجود ہیں۔ ان عہدوں کو کمیشن کے تحت پُرکرنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت امیدواروں کو مکران یا ژوب سے کوئٹہ آنا پڑتا ہے۔ بی پی ایس سی کی کم از کم 2 سے 3 شاخیں قائم کی جائیں۔
س
ٹیچرزیونین اساتذہ کے تبادلوں کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ آپ ان کے ساتھ کیسے نمٹیں گے؟ مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہے؟
حافظ عبدالمجید: یہ کوئی انفرادی اقدام نہیں ہے۔ یہ تنظیمی سطح پرہو رہا ہے۔ ان تبادلوں کو روکنے کے لیے وزرا، ایم پی اے اور اپوزیشن سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کریہ درخواستیں مسترد کردیں کہ یہ سیکرٹری تعلیم کا اچھا اقدام ہے۔ اساتذہ کو پہلے اپنے اضلاع کی خدمت کرنی ہوگی۔
لازمی سروس کے بارے میں حکومتی ایکٹ ہے،جس پرعمل درآمد کیا جائے گا۔ جو بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرے گا،اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر کوئی ان اقدامات سے خوش نہیں ہے تو وہ دوسری ملازمت تلاش کرسکتا ہے۔ ہم کسی کو اپنے طلباء کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
س
بلوچستان کا نصاب معیاری نہیں ہے۔ کچھ ادارے ایسے ہیں، جنہوں نے اپنا تعلیمی معیاربہترکیا ہے، لیکن سرکاری تعلیمی ادارے بہت پیچھے ہیں۔ کیا نصاب کوجدید بنانے کا کوئی منصوبہ ہے؟
حافظ عبدالمجید: ہمارے پاس نصاب کا ایک ادارہ ہے، جو تمام نصاب کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ تاہم، ہم نے اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زبانوں کو چھوڑکربلوچستان میں وفاقی نصاب کو اپنایا ہے۔ سائنس اورتکنیکی تعلیم کے کورسزبھی وفاقی نصاب پرمبنی ہیں۔
س
بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے، جہاں ریکوڈک اورسینڈیک جیسی کانیں موجود ہیں۔ کان کنی سے متعلق تکنیکی تعلیم کے فروغ کے لیے اب تک کون سے اقدامات کیے گئے ہیں؟
حافظ عبدالمجید: بلوچستان میں تکنیکی تعلیم مختلف اداروں کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے نا کہ کسی ایک ادارے سے۔ اس وقت محکمہ صنعت، محکمہ اسمال انڈسٹریز، محکمہ تجارت، محکمہ سماجی بہبود اورمحکمہ محنت کی جانب سے مختلف فنی تعلیم کے پروگرام جاری ہیں۔ پولی ٹیکنیک اسکول بھی ہیں، جوکالجوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ ان تمام پروگراموں کو ایک محکمے کے تحت چلایا جانا چاہیے،جیسا کہ دیگرصوبوں میں ٹیکنیکل بورڈزہیں جو یہ جائزہ لیتے ہیں۔ ہم نے چیف سیکرٹری کو ایک سمری بھیجی ہے تاکہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک ہی محکمہ بنایا جائے کیونکہ میرے خیال میں یکساں پالیسی کی ضرورت ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News