
اسپن باؤلنگ کئی دہائیوں سے برصغیر میں ایک ایسا فن رہا ہے جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسی ٹیموں نے اس فن میں مہارت رکھنے والے کئی بہترین باؤلر پیدا کیے ہیں۔
دنیا کے اس حصے میں سست رفتار پچیں اسپن گیند بازوں کی مدد کرتی ہیں جو بلے بازوں کو اپنے تھوڑے سے ٹرن اور باؤنس سے پریشان کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس پچھلے کئی برسوں کے دوران، عبدالقادر سے لے کر ثقلین مشتاق تک اور سعید اجمل سے لے کر یاسر شاہ تک کئی عالمی معیار کے اسپنرز موجود رہے ہیں۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نام نہاد ’مسٹری اسپنر‘ نہیں تھا لیکن امکان ہے کہ نوجوان ابرار احمد کو انگلینڈ کے خلاف آئندہ ٹیسٹ سیریز کے لیے قومی اسکواڈ میں منتخب کیے جانے کے بعد ایسا نہیں رہے گا۔
24 سالہ نوجوان کو حالیہ قائداعظم ٹرافی (پاکستان کے پریمیئر فرسٹ کلاس مقابلے) میں ان کی شاندار پرفارمنس کے بعد دستے میں شامل کیا گیا تھا جہاں وہ 22 رنز فی وکٹ سے بھی کم اوسط کے ساتھ 43 وکٹیں اپنے نام کرنے والے سرفہرست باؤلر رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران وہ پانچ مرتبہ پانچ یا زائد وکٹیں لینے میں کامیاب رہے، جو کہ یقیناً ایک غیر معمولی کارکردگی ہے۔
ابرار کی گزشتہ برسوں میں کامیابی کا راز ایک ہی ایکشن کے ساتھ مختلف گیندیں کرنے کی ان کی صلاحیت ہے۔ ان کا تعارف تو ایک لیگ بریک باؤلر کے طور پر ہی کیا جاتا ہے لیکن وہ نا صرف گوگلی اور کیرم بال کر سکتے ہیں بلکہ بلے بازوں کو اپنی مختلف قسم کی فنگر اسپن سے بھی پریشان کر سکتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کراچی میں پیدا ہونے والے اس باؤلر کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا، اس سے پہلے بھی وہ اُس دستے کا حصہ تھے جس نے آسٹریلیا میں ہونے والے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل 20 اوور کے فارمیٹ میں انگلینڈ کا سامنا کیا تھا۔
مختصر ترین فارمیٹ میں موقع حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد، کراچی کنگز کے سابق اسپنر اب راولپنڈی میں نعمان علی یا زاہد محمود کے ساتھ پانچ روزہ فارمیٹ میں ڈیبیو کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ابرار کا کھیل کی اس سطح تک پہنچنے کا سفر ہر اس کھلاڑی سے ملتا جلتا ہے جس نے ملک کے سب سے بڑے شہر کی نمائندگی کرتے ہوئے قامی ٹیم تک رسائی حاصل کی۔
انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کی اور آہستہ آہستہ ٹیپ بال میں مسٹری اسپن کے فن میں مہارت حاصل کی۔ بہت سے لوگوں نے کرکٹ اکیڈمی جوائن کرنے کے لیے ان کا حوصلہ بڑھایا اور انہوں نے 2016ء میں گلبرگ میں قائم راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی میں داخلہ لیا۔
اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے، وہ زون تھری کے لیے کھیلے اور دلکش کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
بول نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے سال مجھے زیادہ مواقع نہیں ملے لیکن دوسرے سال میں نے چھ میچوں میں 54 وکٹیں حاصل کیں۔
ان کی اس کارکردگی کو نظر انداز کیا جانا ممکن نہ تھا اور اسی لیے انھیں علاقائی سطح پر ترقی دی گئی جہاں انھیں کراچی میں کوچنگ کی دنیا کے ایک مشہور نام مسرور احمد کی سربراہی میں کھیلنے کا موقع ملا۔
وہ ایک روزہ ٹورنامنٹ کے بہترین باؤلر بن گئے اور انہیں 2017ء میں کراچی کنگز نے پاکستان سپر لیگ کی ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی کیٹیگری میں ڈرافٹ کیا۔
لیکن اس کے بعد سے، دائیں بازو کے اس اسپنر کے لیے معاملات سازگار نہ رہ سکے۔ 2017ء کا ایڈیشن ایسا نہیں ہوا جیسا کہ نوجوان ابرار نے امید کی ہو گی کیوں کہ وہ کراچی کنگز کے لیے صرف دو میچ کھیل سکے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔
ان مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، نوجوان کو کراچی کنگز کے اس وقت کے کوچ مکی آرتھر نے سراہا جو قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی تھے۔
اس کے بعد، ابرار کو ایک اور دھچکا لگا کیونکہ وہ کمر کے نچلے حصے میں ایک چوٹ کا شکار ہوئے جس نے انہیں ایک سال سے زیادہ عرصے تک ایکشن سے باہر کر دیا۔
اپنی فٹنس اور فارم کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک طویل صبر آزما وقت دینا پڑا جہاں مکی آرتھر نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں 40 دن تک تربیت کے دوران ان کی مدد کی۔
اس کے بعد سے مسٹری اسپنر نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور قومی ٹیم کی نمائندگی کے اپنے حتمی مقصد تک پہنچنے کی طرف قدم بڑھاتے رہے۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا، ’’میں 2019ء میں واپس آیا اور کراچی کنگز کے زیر اہتمام ’سندھ کے شہزادے‘ کے نام سے منعقدہ ٹورنامنٹ میں کھیلا۔ مجھے ٹورنامنٹ کا بہترین باؤلر قرار دیا گیا، یہ کارکردگی کراچی کنگز کے لیے کافی تھی کہ انہوں نے 2019ء کے ایڈیشن کے لیے مجھے دوبارہ ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی کیٹیگری میں سائن کیا لیکن میں کھیل نہیں سکا کیونکہ اس دوران عمر خان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘‘
وہ 2020ء میں باقاعدہ واپس آئے، نیشنل ٹی ٹوئنٹی سیکنڈ الیون کپ میں سندھ کے لیے کھیلتے ہوئے، 16 کے اسٹرائیک ریٹ اور 6 اعشاریہ 25 کی اکانومی کے ساتھ تین وکٹیں حاصل کیں۔
لیکن قائداعظم ٹرافی سیکنڈ الیون میں ریڈ بال کرکٹ میں ان کی زبردست کارکردگی نے سب کی توجہ کا رخ ان کی جانب موڑا جہاں انہوں نے 11 اعشاریہ 75 کی شاندار اوسط اور صرف 24 اعشاریہ 1 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 57 وکٹیں حاصل کیں، یہ ان کی اس ڈویژن میں بہترین کارکردگی تھی۔
اسی سیزن میں، انہیں سندھ فرسٹ الیون میں ترقی دی گئی جہاں انہوں نے آخر کار نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جنوبی پنجاب کے خلاف اپنا فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا۔ انہوں نے میچ کے 52 اوورز میں 199 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
ابرار پھر پی ایس ایل میں واپس آئے جہاں پشاور زلمی نے انہیں 2021ء کے ایڈیشن کے لیے سائن کیا۔ ابوظہبی میں، انہوں نے اپنی سابقہ فرنچائز کے خلاف کھیلتے ہوئے صرف 14 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
حال ہی میں ختم ہونے والے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ 2022ء میں، انہوں نے صرف 7 اعشاریہ 35 کے اکانومی ریٹ کے ساتھ آٹھ میچوں میں 10 وکٹیں حاصل کرکے ٹائٹل جیتنے میں سندھ کی مدد کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
یہ وہی کارکردگی تھی جس نے چیف سلیکٹر محمد وسیم کو انہیں انگلینڈ کے خلاف سات میچوں کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز کے لیے منتخب کرنے پر مجبور کیا۔
جہاں تک ابرار کا تعلق ہے، وہ اس فارمیٹ کا حصہ بننے کے لیے بہت زیادہ پرجوش ہیں جہاں انہیں لگتا ہے کہ ان کے پاس اپنی ٹیم کے لیے بہت کچھ ہے۔
انہوں نے کہا، ’’آپ جتنی زیادہ باؤلنگ کریں گے آپ اتنی ہی زیادہ لمبے فارمیٹس میں وکٹیں لیں گے۔ میں پچھلے کچھ مہینوں سے طویل اسپیل کر رہا ہوں، پی سی بی مجھے کیمپوں میں بلا رہا ہے جس سے مجھے بہت مدد ملی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’میں بھی قومی ٹیم کا حصہ تھا لیکن کھیل نہیں سکا۔ مگر میں نے وہاں بھی نیٹ پر لمبے اسپیل کیے جس سے مجھے دو فرسٹ کلاس میچوں میں 18 وکٹیں حاصل کرنے میں مدد ملی۔
تاہم، 24 سالہ نوجوان تمام فارمیٹس میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے اور بہترین کارکردگی دکھانے کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’ہر فارمیٹ کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، کوئی خاص فارمیٹ میرا پسندیدہ نہیں، بحیثیت کرکٹر ہر فارمیٹ کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ جب بھی مجھے پاکستان کے لیے کھیلنے کا موقع ملے گا میں پرفارم کرنے کے لیے تیار ہوں گا۔‘‘
مسٹری اسپنرز پچھلے کچھ سالوں سے دنیائے کرکٹ کا حصہ ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے ابرار احمد قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے پہلے مسٹری اسپنر ہوں گے۔
اس فن میں خود کو بہتر بنانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، پشاور زلمی کے اسپنر نے انکشاف کیا کہ وہ ابھی بھی سیکھنے کے مرحلے میں ہیں اور افغانستان کی جوڑی راشد خان اور مجیب الرحمٰن کی طرح کچھ نئی چالیں سیکھنے کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میں نے اجنتھا مینڈس اور سنیل نارائن کو اپنی باؤلنگ بہتر کرتے دیکھا، میں نے راشد خان اور مجیب سے بھی کچھ سیکھا ہے۔ میں ان کی ویڈیوز دیکھتا ہوں کہ وہ بال کی رفتار اور مختلف حربے کیسے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے پی ایس ایل کے دوران نارائن سے بھی کچھ سیکھا جہاں انہوں نے مجھے باؤلنگ لینتھ کی اہمیت کے بارے میں بتایا۔
میں اچھی لینتھ پر گیند کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مسٹری اسپنرز اور عام اسپنرز مختلف ہوتے ہیں۔ میں مختلف گیندیں کرتا ہوں اور ایک مختلف ڈلیوری کے ساتھ بلے بازوں کو حیران کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے مجھے وکٹیں مل سکتی ہیں۔
میں مسٹری اسپنر کیٹیگری میں بہترین باؤلر بننے کی کوشش کروں گا۔ میں بلے بازوں کی کمزوریوں کو دیکھتا ہوں اور ایسی گیند کا اندازہ لگاتا ہوں جو مجھے وکٹیں لینے میں مدد دے سکیں۔ میں اپنی گیند بازی کے کچھ رازوں کو ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ کچھ چیزوں کو راز رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
آئندہ ٹیسٹ سیریز میں اپنے مقصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جو تقریباً دو دہائیوں میں پہلی بار ہو گا کہ جب انگلینڈ پاکستان کی سرزمین پر پانچ روزہ فارمیٹ میں کھیلے گا، ابرار نے ان دو وکٹوں کے نام بتائے جنہیں وہ لینے کے لیے بے چین ہوں گے۔
انہوں نے کہا، ’’میرا ہدف ہے کہ جب بھی میں باؤلنگ کرنے جاؤں تو پانچ سے چھ وکٹیں حاصل کروں لیکن جو روٹ اور بین اسٹوکس کی وکٹیں مجھے سب سے زیادہ پسند ہوں گی۔‘‘
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News