Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بہتر سلیکشن، بیٹنگ حکمت عملی میں تبدیلی اور کھیل سے آگہی ہمیں عالمی چیمپئن بنا سکتی تھی

Now Reading:

بہتر سلیکشن، بیٹنگ حکمت عملی میں تبدیلی اور کھیل سے آگہی ہمیں عالمی چیمپئن بنا سکتی تھی

جب پاکستانی اپنے رنرز اپ میڈل وصول کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے تو ان کے چہروں پر ایک مایوسی عیاں تھی۔ کوئی خلا میں گھور رہا تھا تو کہیں اس کھلاڑی کے چہرے پر بھی اداسی تھی جسے اپنی مسکراہٹ اور خوش مزاجی کے لیے جانا جاتا ہے۔

شاید انہیں اب تک یقین نہیں ہوا تھا یا پھر وہ حقیقت سے انکاری تھے؟ دل چاہا انہیں ایک ایک کر کے گلے لگا کر ان کا حوصلہ بڑھایا جائے، کیونکہ انہوں نے آخری 19 اوورز میں میدان پر زبردست محنت کی تھی، جوش اور مقصدیت کے ساتھ گیند بازی کی تھی، انہوں نے میدان میں اپنا پورا زور لگایا تھا اور کامیابی کے لیے بے چین رہے تھے۔ وہ میدان کے چاروں طرف الگ الگ ضرور کھڑے تھے لیکن ایک ہو کر لڑے تھے۔

یہاں ان کی پزیرائی ضروری ہے کہ وہ ڈچ ٹیم کی کامیابی کی صورت ایک معجزانہ موقع ملنے کے بعد یہاں تک پہنچے۔ کم از کم انہوں نے اس موقع کو ضائع نہیں کیا اور کھیل کے لیے باعثِ فخر رہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فائنل میں کانٹے دار مقابلے اور جیت سے بمشکل ایک اوور دور رہ جانے کے باوجود کیا رمیز راجہ اس بات پر تنقیدی نظر ڈالیں گے کہ کیا کچھ غلط ہوا۔

یا وہ یہ کہیں گے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں یہ ایک اچھی جیت کی معقول علامت ہے، وہ بھی پانچ وکٹوں کے ساتھ؟ حقیقت یہ ہے کہ انگلینڈ تو مقررہ ہدف کے مطابق کھیلا، اگر انہیں مشکل میں ڈالنا تھا تو کم از کم 25 رنز مزید درکار تھے کیونکہ اس سے کم کچھ بھی ہوتا تو وہ اس سے بھی زیادہ جارحانہ انداز میں کھیلتے۔

Advertisement

پھر بھی وہ اضافی 25 رنز انہیں انتہائی حد تک آزماتے، ساتھ ہی اگر شاہین اپنی آخری 11 گیندیں کرنے کے لیے دستیاب رہتے، مگر ایسا نہ ہو سکا!

رمیزکو فائنل میں پہنچنے کے رومانوی سحر سے باہر نکلنا ہوگا بلکہ کھیل کی دوسری اننگز میں مین اِن گرین کی جانب سے اس زبردست جدوجہد کو بھی اب بھولنا ہوگا جس نے کھیل کی پہلی اننگز کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا۔

اب انہیں ان تمام سوالوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا جو پچھلے 12 مہینوں میں کیے گئے تھے اور ان کی طرف سے جواب یہ آیا تھا کہ جب ہم نے اپنے 80 فیصد میچ اس انداز سے جیتے ہیں تو تبدیلی کیوں؟

خوف باقی ہے، اس لیے اب ان کا جواب یہ ہوگا کہ ہم ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گئے لہذا ہم یقیناً سب کچھ ٹھیک ہی کر رہے ہوں گے۔

بالکل، مگر وہ ’سب کچھ ٹھیک‘ ہمیں ایک اور سال پیچھے کر سکتا ہے۔ جب تک کہ ہم اپنی اصل سلیکشن، فٹنس کے مسائل، حتمی ٹیم، بیٹنگ آرڈر، بیٹنگ حکمت عملی اور کھیل کی آگاہی کا سختی اور بے رحمی سے جائزہ نہ لیں۔ آئیے ان پر ایک ایک کرکے نظر ڈالتے ہیں۔

Advertisement

اصل سلیکشن

یہ بات ایک سال سے زیادہ عرصے سے معلوم تھی کہ ورلڈ کپ آسٹریلیا کی پچوں اور گراؤنڈز پر بالترتیب باؤنسی اور بڑی باؤنڈریز کے ساتھ ہوگا۔

کسی عام فہم رکھنے والے کے لیے بھی تب سے ہی یہ بات واضح تھی کہ ہمیں ایک ایسا آل راؤنڈر تیار کرنا ہے جو تیز گیند باز ہو۔ اور اگر ہمارے پاس فوری طور پر کوئی ایسا کھلاڑی تیار نہیں ہے تو ہمیں کم از کم تین ممکنہ کھلاڑیوں کو منتخب کرکے ان پر کام کرنا ہوگا۔

ایسے نام اور پرفارمنسز موجود بھی تھیں جیسے کہ اگر آپ ایک نئے کھلاڑی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو عماد بٹ اور اگر آپ تجربہ کار کھلاڑی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو فہیم اشرف۔

فہیم کی رفتار تقریباً ایک گز کم ہو گئی تھی لیکن اس پر کام کیا جا سکتا تھا اگر ہم شان ٹیٹ پر اتنا پیسہ خرچ نہ کر رہے ہوتے۔

ہمارے اپنے کوچنگ وسائل کے اندر ہمارے پاس عبدالرزاق اور اظہر محمود تھے جو انہیں ڈومیسٹک لیول پر تفویض کیے جا سکتے تھے۔

Advertisement

فہیم نے اس سال کے شروع میں کھیلے گئے 10 پی ایس ایل گیمز میں 8 اعشاریہ 35 کی اوسط سے نو وکٹیں حاصل کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رکی پونٹنگ نے اگست میں انہیں اگلے ماہ شروع ہونے والے بگ بیش میں ہوبارٹ ہریکینز کے تین غیر ملکی کھلاڑیوں میں سے ایک کے طور پر منتخب کیا تھا، اس سے سلیکٹرز کو بھی ایک اشارہ ملنا چاہیے تھا۔

اس کے بجائے انہوں نے نواز کی شکل میں ایک اسپن آل راؤنڈر کو منتخب کیا جسے یقینی طور پر فائنل اسکواڈ میں ہونا بھی چاہئے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم اینڈ کمپنی ایک ماہر بلے باز کی جگہ ایک تیز گیند بازی کرنے والے آل راؤنڈر کی جگہ بنا سکتے تھے۔

اس سال پی ایس ایل میں، فہیم کی بیٹنگ اوسط 30 اعشاریہ 25 تھی اور 177 اعشاریہ 94 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ وہ ٹاپ ٹین میں شامل تھے۔

سال 2022ء میں 18 کی اوسط اور 116 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 11 اننگز میں 145 رنز اور 35 کے بہترین انفرادی اسکور کرنے والے خوش دل شاہ کو ٹیم میں شامل رکھنا ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔

انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں کھیلے گئے چار میچوں میں ان کی ناقص بیٹنگ ثبوت کے طور پر کافی ہونی چاہیے تھی۔ ٹیم انتظامیہ کی طرف سے اعتماد کی کمی یا ناکامی کا خوف ایسا تھا کہ انہیں نہ تو نیوزی لینڈ میں سہ فریقی سیریز کے پانچوں میچوں میں سے کسی میں کھلایا گیا اور نہ ہی ورلڈ کپ کے کسی بھی میچ میں، حتیٰ کہ آصف علی اور حیدر علی بھی مایوس کن رہے۔

Advertisement

فٹنس کے مسائل

یہ مضحکہ خیز حد تک حیران کن ہے کہ فخر زمان کو اسکواڈ میں اس وقت منتخب کیا گیا جب انہوں نے اپنے گھٹنے کی چوٹ کے بعد سے کوئی میچ نہیں کھیلا تھا۔ یہ ایک گھبراہٹ میں کیا گیا انتخاب تھا کیونکہ وہ نہ تو ورلڈ کپ کے پہلے دو میچوں کے لیے مکمل فٹ تھے اور نہ ہی نیوزی لینڈ میں سہ فریقی سیریز یا وارم اپ میچوں کے لیے۔

اس کے بعد وہ اتنی جلدی کیسے اپنی فارم میں واپس  آسکتے تھے؟ یہاں تک کہ توقع تو یہ تھی کہ وہ گروپ مرحلے کے وسط تک مکمل فٹ ہو جائیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایک مکمل میچ کھلا کر آزمایہ نہیں گیا تھا، افسوس کہ یہی ناگزیر تھا۔

پورے ٹورنامنٹ میں اتنی قابل تعریف کارکردگی کے باوجود شاہین شاہ آفریدی کے لیے بہتر یہی ہوتا کہ انہیں ورلڈ کپ میں نہ کھلایا جاتا۔

انہوں نے پاکستان کے لیے یقینی طور پر کام کر دکھایا اور منصفانہ طور پر دیکھا جائے تو فیلڈنگ کے ایک تکلیف دہ واقعے کو بنیاد بنا کر ٹورنامنٹ کے لیے ان کی فٹنس پر سوالیہ نشان نہیں لگنا چاہیے۔ وہ باؤلنگ کرنے کے لیے بڑی حد تک فٹ تھے اور مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے جو کیا اس کے بغیر شاید پاکستان سیمی فائنل اور فائنل میں جگہ نہ بنا پاتا۔

لیکن یہ بنیادی طور پر ایسے عجیب و غریب واقعات سے بچنے کے لیے ہی ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں کو مکمل صحت یاب ہونے تک زیادہ دباؤ والے میچوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

Advertisement

حتمی ٹیم

میں نے ورلڈ کپ سے قبل یہاں ایک کالم میں لکھا تھا کہ آسٹریلیا میں پاکستان کو چار تیز گیند بازوں کے ساتھ ان جاندار پچوں کا استعمال کرنا ہوگا جو بال کو کندھے سے اونچا اور خاص طور پر تیز رفتار کے ساتھ بلے باز کے لیے کھیلنا مشکل بنا سکیں۔

لیکن ثقلین مشتاق، محمد یوسف اور خاص طور پر شان ٹیٹ اور میتھیو ہیڈن کے آسٹریلوی کنڈیشنز کے برسوں کے تجربے کے باوجود، پاکستان کو پہلے ہی میچ میں شکست کھانی پڑی اور نواز کے آخری دو (تقریباً بے بس) اوورز اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے کافی تھے کہ ہمیں نہ صرف چار تیز گیند بازوں کی ضرورت ہے بلکہ چھ ماہر گیند بازوں کی بھی ضرورت ہے کہ اگر کوئی زخمی ہو جائے یا اس کے بقیہ کوٹے میں زیادہ رنز بننے کا خطرہ ہو تو آپ کے پاس متبادل موجود ہو۔

بیٹنگ آرڈر اور حکمت عملی

Advertisement

انگز کا آغاز کسے کرنا چاہئے اس پر حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ سیر حاصل بحث ہو چکی ہے لہذا میں دوبارہ اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن پھر بھی یہ کہنے کی ضرورت باقی ہے کہ سیمی فائنل تک جانے والے پانچ میچ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے کہ پاور پلے میں یہ حکمت عملی کام نہیں کر رہی تھی، بہت سے لوگوں کی جانب سے یہی پیش گوئی تھی، خاص طور پر ان میچوں میں جب پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی۔

پاکستان نے تین میچوں میں پہلے بیٹنگ کی اور مڈل آرڈر کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ درحقیقت اسی حکمت عملی نے ٹیم کو زبردست دباؤ میں رکھا۔

صرف جنوبی افریقہ کے خلاف مڈل آرڈر نے ہمت دکھائی اور کسی حد تک ہندوستان کے خلاف بھی جہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف نے آخری دو اوورز میں پاکستان کو 145 سے آگے جانے میں مدد دی تھی۔ لیکن یہ ہمیشہ معمول سے ہٹ کر ہونے والے معاملے تھے۔

ایشیا کپ میں شاداب اور نواز کے بیٹنگ آرڈر میں وقتی تبدیلیوں کے رجحان کو فروغ دیا گیا اور پھر جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو انہیں مختلف نمبروں پر استعمال نہیں کیا گیا، درحقیقت تقریباً پورے ٹورنامنٹ میں ایک بار بھی نہیں۔

یہاں تک کہ جب شاداب نے جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کو 4 وکٹ کے نقصان پر 43 رنز جیسی مشکل صورتحال سے اپنی دھواں دار اننگز کی مدد سے نکال کر اپنی اہمیت منوائی۔ پھر بھی انہیں بنگلہ دیش کے خلاف اوپر نہیں لایا گیا جب پاکستان ایک بار پھر مشکل میں تھا، یا فائنل میں اوپر کھلایا جاتا جب حارث کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کو فوری سہارے کی ضرورت تھی۔

Advertisement

کھیل کی آگہی

اگر کرکٹ کی دنیا میں یہ ایک نووارد ملک ہوتا جو اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہوتا تو اس کے لیے انہیں معافی بھی مل جاتی۔ لیکن ہزاروں گھنٹے کا تجربے رکھنے والی ٹیم جو ایسی لاتعداد مشقیں کر چکی ہو، وہ زمبابوے کے خلاف گروپ کے اپنے دوسرے اور انگلینڈ کے خلاف فائنل میں ایک جیسی غلطیاں کرے۔

اس سطح پر اور خاص طور پر ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ میں، آپ ہر ٹیم کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، خاص طور پر فائنل راؤنڈ میں جو اس معاملے میں سپر 12 تھا۔

لیکن پاکستان نے 39 گیندوں میں سات وکٹیں ہاتھ میں ہوتے ہوئے تقریباً 40 رنز بنانے کے ساتھ، سادہ گراؤنڈ شاٹس کے بجائے بڑے شاٹس مارنے کی کوشش میں ایک بہتر ہدف مقرر کرنے کا موقع ضائع کر دیا۔

ٹیم میں موجود ہر ایک نے بے تحاشہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کرکٹ کھیلی ہوئی تھی جو یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ کسی بھی میچ کو ایک اچھی اور آرام دہ پوزیشن سے بھی ہارا جا سکتا ہے اگر جذبات (اور شاید حد سے زیادہ خوداعتمادی) کو قابو میں نہ رکھا جائے۔

تو شاداب، جو پاکستان ٹیم کے سب سے ہوشیار دماغوں میں سے ایک ہیں، نے چھکا مارنے کی کوشش میں ایک گیند اونچی اٹھا دی اور وسیم شارٹ گیندوں کو ہُک کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے اور نواز نے اس وقت گیند کو ہوا میں اٹھا کر کھیلا جب جیتنے کے لیے صرف دو رنز درکار تھے اور تمام فیلڈرز گراؤنڈ کے چاروں طرف اچھے خاصے خلا کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے۔

Advertisement

لہٰذا ہم نے گڑبڑ کر دی، شان مسعود تھوڑا سا پھسل کر لیگ سائیڈ سے سٹمپ ہو گئے مگر بہرحال دوسروں کی طرح اپنی وکٹ کو بے دردی سے ضائع نہیں کیا۔

لیکن پھر فائنل میں پہنچ کر بھی پاکستانی مڈل آرڈر نے ان ہی غلطیوں کو دہرایا جب پاکستان شاید 155 سے 160 تک جا سکتا تھا جو ہماری باؤلنگ کی طاقت اور پچ کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے قابل دفاع ہدف تھا۔

پاور پلے کو مڈل اوورز کی طرح کھیلا جس میں صرف دو فیلڈرز دائرے سے باہر ہوتے ہیں اور مڈل اوورز کو پاور پلے کی طرح جس میں پانچ فیلڈرز دائرے کے باہر ہوتے ہیں۔

ان میں کچھ فیلڈرز کو باؤنڈری لائن سے دس سے پندرہ میٹر اندر رکھا گیا تھا کیوں کہ اسی گراؤنڈ پر انڈیا کے میچ میں دیکھا گیا تھا کہ بال سیدھی باؤنڈری لائن کے پار کم ہی جاتی ہے۔

لیکن یہاں کھیل کے بارے میں آگاہی اتنی کم تھی کہ پانچ پاکستانی کھلاڑی اونچے شاٹس کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے، خاص طور پر شان مسعود۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ پوری قوت سے لگائے گئے وہ شاٹس بھی 80 میٹر کی باؤنڈری کو پار نہ کرسکے بلکہ بلے کے صرف ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں بلند ہو گئے۔

یہاں تک کہ اگر شاداب اور نواز نے کچھ شاٹس گراؤنڈ کے ساتھ کھیلتے ہوئے صرف 10 رنز بھی اور بنا لیے ہوتے تو میچ کے آخر میں فرق پڑ سکتا تھا۔

Advertisement

یہ بہت تکلیف دہ ہے! بھارت کے خلاف وہی میدان، وہی غلطی۔ زمبابوے جیسی ہی صورتحال، لیکن پھر بھی وہی اونچے شاٹس۔

میں زمبابوے کی صورتحال کو اسی لیے برابر سمجھتا ہوں (حالانکہ تب پاکستان ہدف کا تعاقب کر رہا تھا) کہ پاکستانی تھنک ٹینک نے دیکھ لیا تھا کہ یہ بڑے گراؤنڈز ہیں اور گیندیں وہاں گرتی ہیں جہاں فیلڈر کی پوزیشن ہوتی ہے۔

11 اوورز کے بعد 2 وکٹ کے نقصان پر 84 رنز بن جانے کے بعد اب پاکستان کو بس گراؤنڈ شاٹس کھیلنا تھے اور ایک اوور میں دو سے تین بار ڈبل رن لینا تھا، ایک یا دو میں سنگل لینا تھا اور اس خراب گیند پر باؤنڈری کی کوشش کرنی تھی جو عام طور پر ہر 8 سے 9 گیندوں کے بعد آہی جاتی ہے۔

یہ واضح تھا کہ یہ ایک ایسی پچ تھی جو گیند پر گرفت کر رہی تھی اور پچ پر پڑنے کے بعد آہستہ آ رہی تھی جس کی وجہ سے گیند کی رفتار کو استعمال کرنا ممکن نہں ہو رہا تھا کہ شاٹ میں اتنی جان آتی کہ وہ اسے باؤنڈری کے پار کر سکے۔

میرا مطلب ہے، انگلینڈ، خاص طور پر اسٹوکس نے ہمیں دکھایا کہ ٹورنامنٹ میں بہترین باؤلنگ اٹیک کے خلاف کیسے کھیلنا ہے۔ اسٹرائیک کو روٹیٹ کریں، چھکوں کی بجائے دو رنز اور چوکے ماریں۔

ہم اسے کم از کم اسٹوکس اور کرس ووکس اور کرس جارڈن کے ساتھ کر سکتے تھے۔ یہ میچ کا وہ حصہ تھا جہاں ہم بازی ہار گئے، حالانکہ بھارت اور زمبابوے کے خلاف میچز ہمیں سکھا چکے تھے کہ کیا نہیں کرنا ہے۔

Advertisement

پھر عادل رشید کی گیند پر محمد حارث کو آؤٹ کرنے کا جائزہ لیں، یہ ایک اہل لیگ اسپنر کی باؤلنگ ہے۔ بائیں ہاتھ والے نواز کو ان کا سامنا کرنے کے لیے بھیجیں، جس کے بارے میں ہم نے پچھلے ایک سال میں بہت کچھ سنا ہے، اس حد تک کہ وہ بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے میچ میں کار گر رہے جب نواز کو بائیں ہاتھ اور لیگ اسپن کو سنبھالنے کے لیے اوپر کے نمبر پر کھیلنے کے لیے بھیجا گیا۔ اس دن انہوں نے ہندوستانی باؤلرز کا سامنا کرتے ہوئے صرف 20 گیندوں پر 42 رنز بنائے تھے۔

یا کم از کم بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد نواز کو بھیج دیتے کیونکہ لیگ اسپن کی 11 گیندوں پر لیونگ اسٹون کے واپس آنے کا امکان باقی تھا۔ لیکن ہم دائیں ہاتھ والے بلے باز ہی بھیجتے رہے۔ ہم اپنے پرانے کامیاب اقدام سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔

آخر میں، پچ گرفت بھی کر رہی تھی اور ٹرن بھی تو نواز کو کم از کم ایک اوور دے کر کیوں نہیں آزمایا گیا؟ انہیں پھر کھلایا ہی کیوں گیا تھا؟ شاہین شاہ آفریدی کا اوور مکمل کرنے کے لیے افتخار کو نواز پر ترجیح دی گئی جو ایک ماہر بولر تھے۔

کچھ مثبت باتیں

فائنل میں ہارنے کے باوجود پاکستان سب کچھ نہیں ہارا۔ پاکستان آخری گیند تک لڑنے کے بعد میدان سے باہر آیا۔ پورے ٹورنامنٹ میں ان کے پاس سب سے زیادہ طاقتور اور کم رنز دینے والا باؤلنگ اٹیک تھا جس نے ایک بار پھر بیٹنگ اور تھنک ٹینک کی خامیوں کو چھپا دیا ہے۔

Advertisement

بلے بازی میں، حارث آخر میں ایک اچھی دریافت رہے اور شان مسعود بلے بازوں میں سب سے زیادہ مرکز نگاہ اور ترقی کرنے والے کھلاڑی رہے۔

ان کی فیلڈنگ (زمبابوے کے میچ میں ایک برے دن کو چھوڑ کر) کم از کم ان کے سابقہ معیارات کے لحاظ سے شاندار تھی۔ دو پاکستانیوں کو آفیشل ٹورنامنٹ الیون میں منتخب کیا گیا۔

یہ صرف اتنا ہے کہ اگر پاکستان نے بہتر سلیکشن، پاور پلے حکمت عملی میں تبدیلی اور کھیل سے متعلق زیادہ آگہی دکھائی ہوتی تو ہم ورلڈ کپ جیت سکتے تھے۔

یہی چیز شائقین کو پریشان کرتی رہی کیونکہ فائنل میں ہمارے گیند بازوں نے ہر گیند کا مقابلہ کیا اور آفریدی، نسیم، رؤف اور شاداب کی طرف سے سب نے متاثر کن باؤلنگ کی۔ ایک حد تک وسیم بھی متاثر بھی کرنے میں کامیاب رہے۔

اگر یہ ناممکنات میں سے ایک ناممکن بات بھی ہوتی کہ پاکستان جیت جائے گا تو دل قبول کر سکتا تھا۔

لیکن ہماری اپنی ناقص حکمت عملی اور کوتاہیوں، تھنک ٹینک کی انا، منطقی بات کو سننے سے انکار، تکبر اور ’قدرت کے نظام‘ پر حد سے زیادہ انحصار کی وجہ سے فتح کے اتنے قریب آ کر اسے ہاتھ سے جانے دینا بہت تکلیف دہ تھا! واقعی یہ بہت زیادہ تکلیف دہ تھا!

Advertisement

صہیب علوی 40 سال سے زائد عرصے سے کالم نگار، ایڈیٹر، تجزیہ کار، ٹی وی ماہر/میزبان کے طور پر اندرون اور بیرون ملک کرکٹ کو کور کر رہے ہیں۔ آئی بی اے سے ایم بی اے کیا، ان کا بیک وقت کارپوریٹ سیکٹر میں 35 سالہ کیرئیر ہے، انہوں  نے سی سوٹ عہدوں پر کام کیا ہے۔ اب وہ کلائینٹس کو قیادت، کاروباری حکمت عملی، مارکیٹنگ اور تنظیمی منصوبہ بندی کے بارے میں مشورے دیتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم اور سری لنکن صدر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت دینے پر اتفاق
ایشیاکپ؛ شاہد آفریدی قومی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کے لیے پُرامید
ایشیا کپ سپر فور، بھارت نے بنگلا دیش کو شکست دے کر فائنل کیلیے کوالیفائی کر لیا
وفاقی وزیر داخلہ کا درابن میں کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
بی ڈو نیویگیشن نظام پاکستان کی ترقی کا نیا سنگِ میل ہے، احسن اقبال
صدر مملکت کی درابن میں سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن پر مبارکباد
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر