
جیسا کہ رواں ہفتے پہلا ٹیسٹ شروع ہورہا ہے جس میں واضح طور پر ایک دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا،اس لیے نہیں کہ یہ دونوں ٹیموں نے کچھ روزقبل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل میں مقابلہ کیا۔ اورستمبرمیں دوبارہ کھیلی گئی ٹی20 سیریز میں بھی کامیابی حاصل کر رہی تھیں، پاکستان نے مہمانوں کا سامنا کرنے کے لیے 18 رکنی اسکواڈ میں جرات مندانہ اورمحتاط دونوں طرح کے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا ہے۔
تجربہ کاریاسر شاہ اورفوادعالم کو ڈراپ کردیا گیا ہےاورشان مسعود کی واپسی ہورہی ہے۔ سرفرازاحمد اوراظہرعلی جیسے سینئرزکو برقرار رکھنا، واضح طور پر صرف انجری کا شکار محمد رضوان کی مدد کے لیے ہے۔
دوسری جانب محمد علی اورابراراحمد کی شمولیت خوش آئند ہے۔ کچھ لوگوں کو محنتی نعمان علی کے ساتھ میرحمزہ اورظفر گوہرکونظرانداز کرتے ہوئے وسیم جونیئر کا طویل فارمیٹ کے کھیل کے لیے انتخاب سمجھ نہیں آیا۔
اگرچہ زیادہ تر ٹیم متوازن ہے اورجیسا کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم نے کہا کہ وہ صرف انہی کھلاڑیوں میں سے انتخاب کرسکتے ہیں جو ان کے پاس ہیں اورمحتاط انداز سے تجربہ کرسکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کو اہمیت اورتوجہ دی جا رہی ہے۔
آئیے، اس پرتفصیلی نظر ڈالتے ہیں کہ خاص طور پر مہمان ٹیم کی طاقت اورکمزوریوں کے خلاف اسکواڈ کس طرح تیارکیا جاتا ہے۔
ابتدائی سوال
یہ واقعی کافی آسان تھا۔ وہ جس طرح کے کھلاڑی ہیں اوررواں برس انہوں نے جس طرح کی کارکردگی پیش کی ہے،عبداللہ شفیق اورامام الحق کی جوڑی آسانی سے ٹیم میں شامل ہوگئی،اگرچہ کہ امام الحق نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں طے شدہ معیار کومدنظررکھیں تو معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
وہ چاراننگزمیں 120 سے بھی کم رنز بنانے میں کامیاب رہے،تاہم، اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے 32، 35 اور 49 رنز سے کھیل کی اچھی شروعات کی۔
عبداللہ شفیق نے بھی ناٹ آؤٹ 160 رنزکی ایک بڑی اننگز کھیلی، جس نے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کوشاندارفتح دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری جانب انہوں نے دیگرتین اننگزمیں صرف 19 رنز بنائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا آسٹریلیا کے خلاف پہلے ملکی سیریزمیں ان کی بہادری کو دیکھتے ہوئے، پاکستان کو اننگزکےآغازمیں جمی اینڈرسن اورمارک ووڈ کے نئے گیند کے ساتھ حملے کا سامنا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
انگلینڈ کی ٹیم کے اوپننگ اٹیک میں آسٹریلوی بالرزمچل اسٹارک، پیٹ کمنز اورجوش ہیزل ووڈ کے مقابلے میں زیادہ رفتاراورسوئنگ ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتارسے گیند نہیں کی جیسا کہ انگلینڈ کے بولرمارک ووڈ پورے ایک اوورمیں کرنے کے قابل ہے جبکہ جیمزاینڈرسن کا سیون اورسوئنگ اعلیٰ معیارکی ہیں۔
مارک ووڈ بھی ہارڈ لینتھ پرگیند کرتے ہیں اورستمبرمیں ہونے والی ٹی20 سیریزمیں انہوں نے یہاں کس طرح باؤلنگ کی تھی، پاکستانی جوڑی کو پراعتماد اور حوصلے بلند رکھنا ہوں گے۔۔
وہ دواوورز کے دومختصراسپیل تھے اور رات کے وقت وہ نسبتاً زیادہ آرام دہ اندازمیں بولنگ کر رہے تھے۔ لیکن رفتارکا اپنا اثرہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کہاں اورکب کھیل رہے ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں ویسٹ انڈیزمیں بہت زیادہ مختلف حالات میں کہنی کی چوٹ سے پہلے وہ اپنے کمفرٹ زون میں نظر آئے۔
جیمزاینڈرسن کو برطانوی موسم میں اچھے باؤلر کے طورپردیکھنا بھی غلط ہوگا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ ٹھنڈے اولڈ ٹریفورڈ یا ہیڈنگلے کے گراؤنڈز پر جس طرح کے کھیل کا مظاہرہ کرتا ہے اس طرح کا کھیل پیش نہیں کرسکے گا، لیکن اس میں ہر طرح کے ماحول کو اپنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن وہ اب 40 برس کا ہو گیا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی عمر ہوگئی ہے۔لیکن وہ ابھی بھی اتنے ہی فٹ ہیں جتنے کہ وہ گزشتہ سال سری لنکا اوربھارت کے دورے کے دوران تھے، وہ ایک خطرہ ثابت ہوں گے۔
سری لنکا کے شہرگال میں وہ 29 اوورز میں 40 رنز پر 6وکٹس،بھارت کے شہرچنئی میں 11 اوورزمیں17 رنز پر 3 وکٹس اوراحمد آباد میں 25اوورزمیں44 رنز پر 3 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ نہ صرف ان کی آرپار ہوجانے کی مہارت کوبلکہ برصغیر کے حالات میں ان کے کھیلنے کی صلاحیت کو ظاہرکرتا ہے۔
اس کے باوجود شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم میں واپس آتے دیکھنا اچھا لگا ہے۔ انہوں نے اپنی تکنیک پر اس وقت سے سخت محنت کی ہے جب وہ نیوزی لینڈ میں دوسال قبل کھیلے گئے دوٹیسٹوں میں لگاتار تین بار صفر پرآؤٹ ہوئے تھے، جس کی وجہ سے انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔
ان کی گزشتہ پانچ اننگزمیں 30 کے قریب رنزبھی کام نہیں آئے۔ درحقیقت ناکامیوں کے باوجود لگاتار تین ٹیسٹ اننگز میں سنچریاں اسکور کرنے کی وجہ سے ان کے رنز میں اضافہ ہوا تھا،جس میں انگلینڈ میں 156 کی اننگ بھی شامل تھی۔ ڈربی شائر کے ساتھ شاندارموسم گرما میں ان کی دوسنچریاں اوردیگررنزانہیں مزید اچھے مقام پرکھڑا کرتے ہیں ۔
ان کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی دو ٹیسٹ میں ایک یا دونوں اوپنرز کے مایوس کرنے کی صورت میں اظہرعلی کے اوپننگ کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے کہ یہ ممکنہ طورپرپاکستان کے لیے ان کا آخری سیزن ہوسکتا ہے۔ جی بالکل، انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 180 رنز بنائے تھے لیکن وہ ایک مردہ پچ تھی۔ گزشتہ سال کے دوران انہوں نے ایک سادہ سی بلے بازی کی، رواں برس بنگلہ دیش میں آسٹریلیا اورسری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں کھیلی جانے والی اننگزمیں انہوں نے بہت زیادہ وقت لیا اورغیرضروری دفاعی کھیل پیش کیا،اور دوسرے ٹیسٹ کے لیے انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ شان مسعود ان کی جگہ نمبر 3 پرکھیلیں۔ لیکن اس صورت میں شاید انہیں منتخب نہیں کیا گیا ہوگا۔ اگران کا انتخاب کیا جاتا ہے توانہیں کم از کم پہلے ٹیسٹ میں کھلانا چاہئے اورایسا کرنا چاہیے۔ انہیں میدان سے باہربٹھانا ان کے لیے کافی توہین آمیزہوگا۔
مڈل آرڈر کی طاقت
ٹی 20 کے فارمیٹ کے مڈل آرڈر کے بالکل برعکس لمبے فارمیٹ میں قلعے کی حفاظت کرنے والے جنگجوؤں نے نسبتاً بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا، حالانکہ آسٹریلیا کے خلاف محمدرضوان کے علاوہ کوئی نہ سنچری اورشاید نہ ہی کوئی ففٹی بنانے میں کامیاب ہوسکا۔
کپتان بابراعظم کے شاندار 196 رنز کیاننگ کو الگر کریں، جوآسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کی سرکشی کی بنیاد تھے، تومحمد رضوان واحد دوسرے بلے باز ہیں جنہوں نے سیریز میں تین ہندسوں میں رنز بنانے، جو اتفاق سے ایک ہی اننگز میں بنے تھے۔
اس کے علاوہ، یہ مڈل آرڈر کی تباہی تھی،جس کی وجہ سے پاکستان کو لاہورمیں دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا اورگال میں سری لنکا کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا،یہ ایسے میچزتھے جنہیں پاکستان کو بچانا چاہیے تھا۔
سری لنکا کے ساتھ ٹیسٹ سیریز کی پہلی اننگزمیں نمبر4 سے 7کے کھلاڑی صرف 122 رنز کا اضافہ کرسکےاورٹیسٹ کی دوسری اننگ میں 56 رنزبنا سکے کیونکہ بابراعظم نمبر 3 پر کھیلنے چلے گئے تھے۔
اس سے قبل پہلے ٹیسٹ میں بابراعظم کے 119 رنز کے ساتھ شراکت 148 تھی (اظہرعلی نے اس وقت ایک نمبر نیچے بیٹنگ کی) اور دوسرے میں 112 رنزجب اوپنرعبداللہ شفیق اکیلے نے ناقابل شکست 160 رنزبنائے۔
اس سے قبل آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ میں پاکستان ایک فلیٹ بیڈ پرآخری دن 142رنزپر2 آؤٹ کے ساتھ 235 پرآل آؤٹ ہو گیا تھا۔۔4نمبر سے7 نمبر نے مجموعی طور پر 87 رنز بنائے،جن میں 55 رنزبابراعظم کے تھے ۔
مڈل آرڈرنقصانات میں سب سے بری کارکردگی فواد عالم کی رہی، جنہیں موجودہ اسکواڈ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ غیرمنصفانہ ہے کہ انہیں دو بری سیریز کے بعد ٹیم سے باہرکردیا جائے کیونکہ انہوں نے 2021ء میں کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی آخری 6 اننگز میں صرف 58 رنز بنائے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ باؤلنگ کوچزاور تجزیہ کاروں نے انہیں راؤنڈ دی وکٹ اورلائین میں گیند کرانے پران کی دفاعی صلاحیتوں میں جھنجلاہٹ دیکھ لی ہے۔ چھ میں سے پانچ بار وہ لائن اورلینتھ پر ایل بی ڈبلیو یا بولڈ یا وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوئے، دوسری صورت میں رن آؤٹ ہوئے۔
ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے محسوس کیا کہ عثمان صلاح الدین ٹیم میں آسکتے ہیں لیکن محمد وسیم نے پریس کانفرنس میں جو کہا وہ مجھےپسند آیا کہ گزشتہ سیریزمیں بینچ پربیٹھنے والوں کو پہلے موقع دیا گیا ہے، جس کی پہلے مشق نہیں کی جاتی تھی جب کھلاڑیوں کو دوروں میں سائیڈ لائن پر بیٹھنے کے بعد نکال دیا جاتا تھا۔ اس طرح سعود شکیل کو پہلی ترجیح دی گئی ہے۔
تاہم، سری لنکا کے خلاف آخری سیریز میں سلمان علی آغا اورمحمد نوازکولانے کے بعد حکمت عملی یہ لگتی ہے کہ پانچ ماہربلے بازوں (اگرمحمد رضوان کو ان میں سے ایک شمار کیا جائے) اور نمبر6 پرآل راؤنڈرز کے ساتھ کھیلا جائے۔ اورنمبر7 پرفہیم اشرف بھی نمایاں ہیں۔
اس طرح سعود شکیل ابھی بھی اس وقت تک ٹیم میں شامل نہیں ہوسکتے جب تک کہ اظہرعلی یا شان مسعود ون ڈاون پرنہیں کھیلتے اور بابراعظم اوپر کے نمبرپر نہیں جاتے، جیسا کہ انہوں نے سری لنکا میں گزشتہ ٹیسٹ میں کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ مڈل آرڈر کا جو بھی ڈھانچہ ہے، وہ پچھلے تین ٹیسٹ کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
اگر جیمزاینڈرسن اورمارک ووڈ ابتدائی کامیابیاں حاصل نہیں کرتے ہیں تو انگلینڈ کو اسے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اولی رابنسن اور جیمی اوورٹن نے اس موسم گرما میں ٹیم میں واپسی کی ہے لیکن ایشیائی پچوں پران کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔
اگرکپتان بین اسٹوکس خود کو تیسرے سیمرکے طورپردیکھتے ہیں اورایشیائی حالات کو دیکھتے ہوئے دو اسپنرز کے ساتھ کھیلتے ہیں تووہ بھی نہیں کھیل سکتے۔ یہ سب اس پرمنحصر ہے کہ وہ خود کو کتنا فٹ محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان میں گرم اور خوشگوارموسم ان کی آزمائش ہوگی۔
چاہے وہ بولنگ کرے یا نہ کریں، ان کے اسپنرز شاید اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں، جیسی ناتھن لیون اورمچل سویپسن نے آسٹریلیا کے ساتھ مارچ میں یہاں دکھائی تھی۔
انگلینڈ نے پاکستان کے مقابلے میں ایک اور 18 سالہ غیرمعمولی ریحان احمد اسپنر کوشامل کیا ہے،جن کے والد میرپورسے برطانیہ ہجرت کر گئے تھے۔
وہ پہلی باراس وقت سرخرو ہوئے جب صرف 11 سال کی عمر میں انہوں نے بین اسٹوکس اورایلسٹر کک کو نیٹ میں بولنگ کرتے ہوئے کلین بولڈ کیا۔ بالآخر اس سال کے شروع میں انگلینڈ نے انڈر 19 ورلڈ کپ کے لیے انہیں منتخب کیا، انہوں نے 12 وکٹیں لے کر انگلینڈ کو فائنل تک پہنچنے میں مدد کی۔
انگلینڈ کی انڈر 19 ٹیم کے لیے 13 ون ڈے میچوں میں ریحان احمد نے 3اعشاریہ87 فی اوور رنز کی شاندار اوسط کے ساتھ 24 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ اچگے بلے باز بھی ہیں۔ اس موسم گرما میں ایک میچ میں انہوں نے ایک سنچری بنائی اورپانچ وکٹ لیے اورپاکستان جونیئرلیگ میں شرکت کے لیے آ رہے تھے جب انگلینڈ نے انھیں انگلینڈ کی ٹیم کے ساتھ تربیت کے لیے چن لیا۔
درحقیقت، وہ نیٹ میں باؤلنگ کر رہے تھے جب انگلینڈ کی ٹیم متحدہ عرب امارات میں تربیت لے رہی تھی،اورگزشتہ ہفتے بدھ کوانہیں ٹیم میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔ اگر وہ آئندہ ماہ اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کرتے ہیں تو وہ انگلینڈ کے لیے کھیلنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی بن جائیں گے۔ کم از کم موجودہ دورمیں شاید انگلینڈ کے واحد کرکٹر جنہوں نے انگلینڈ کے لیے صرف تین فرسٹ کلاس میچز کھیلے، جن میں انہوں نے صرف 80 سے زائد اوورزکرائے ہیں۔
اصل انتخاب ان کے پاس جیک لیچ کی صورت میں ایک ماہرٹرنرتھا اوران کا ایشیائی پچوں پر دو متضاد ریکارڈ ہے۔ گزشتہ سال ایشیائی ممالک کے دو دوروں پرانہوں نے سری لنکا کے خلاف 2 ٹیسٹ میچوں میں ایک اننگز میں 122 رنز پر 5 وکٹوں کے ساتھ 10 وکٹیں حاصل کیں۔
بھارت کے خلاف انہوں نے 4 ٹیسٹ میں 18 رنزبنائے اورمزید مستقل مزاجی سے تین بارایک اننگز میں 4 رنز لیے۔ اس مشترکہ دورے پرتین بارانہوں نے ایک اننگز میں 100 سے زیادہ رنز بنائے۔
جو روٹ کبھی کبھار لیام لیونگ اسٹون اور ول جیکس کے ہمراہ آف اسپن بولنگ کراتے ہیں، جو کہ دراصل مڈل آرڈر بلے باز کے طور پر کھیلتےہیں، اگر کوئی بھی کھیلتا ہے تو بھی وہ بیک اپ اسپنر کا کردار ادا کریں گے۔
صرف پاکستانی پچوں پر اضافی فائدہ کے لیے انگلینڈ ہیری بروک سے آگے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ تیسرے ماہرتیز گیند باز کے ساتھ بھی جا سکتے ہیں۔ یا انہیں نمبر 7 پر آل راؤنڈر کے طور پر کھلائیں اگروہ دو پیس مین اوربین اسٹوکس کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔
کسی بھی طرح پاکستانی مڈل آرڈرکو ملکی حالات میں انہیں سنبھالنے کے قابل ہونا چاہیے۔
فاسٹ بولرز کا انتخاب
شاہین شاہ آفریدی کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے میرحمزہ کو ٹیم میں نہ آتا دیکھ کر قدرے مایوسی ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی رفتار اچھی نہ ہو لیکن وہ گیند کو اچھی اوردیرتک سوئنگ کرتا ہے۔
انہیں نظر انداز کرنے کی صورت میں پاکستان کے پاس اس سیریز میں بائیں ہاتھ کا تیزگیند بازنہیں ہے، جو انگلش اوپننگ بلے باززاک کرولی کے خلاف ان کی آف اسٹمپ کے اندراورباہرکمزوری کے خلاف کارآمد ثابت ہو، ایسی چیزجس کا تجربہ گیند کے آر پار ہونے سے کیا جاتا۔
سلیکٹرزنے محمد وسیم کی حمایت کی ہے، جنہوں نے بہ مشکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے اور یہ مزید پریشان کن بات ہے۔ انہوں نے ریڈ بال کرکٹ میں صرف سات میچ کھیلے ہیں اور 20 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
ان کا موازنہ میرحمزہ کے 92 میچز میں 376 رنزسے کریں اوروہ کچھ سال پہلے پاکستان کے لئے کھیل چکے ہیں۔ اس سیزن میں اکیلے میرحمزہ نے 4 میچوں میں 24 کی اوسط سے 16 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے 25اعشاریہ54 کی اوسط سے 6 میچوں میں 24 کی اوسط کے ساتھ محمد علی کو منتخب کیا ہے اور صرف اعدادوشمار کے مطابق طویل فارمیٹ میں میرحمزہ نے دونوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یقینی طور پر ان سے پہلے ایک موقع کے مستحق ہیں۔
حارث رؤف کو واضح طورپران کی رفتار اور تجربے کے حوالے سے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ اب شاہین آفریدی دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم، اگروہ زخمی نہ بھی ہوتے تو بھی پاکستان نے ان کی واپسی کے فوراً بعد انہیں طویل فارمیٹ کے لیے کھیلنے سے روک دیا جاتا۔
لہٰذا حارث رؤف کی شمولیت یقینی تھی اوروہ پہلے بھی ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل تھے۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلتے اورطویل فارمیٹ کے کھیل کے لیے ابھی تک ان کے مزاج کی آزمائش نہیں کی گئی ہے ۔
لیکن وہ انتہائی فٹ رہتے ہے اور ان کی رفتار،خاص طورپراگرپچ نرم ہوں، تو کافی مدد مل سکتی ہے۔ تاہم وہ ہارڈ لینتھ گیند کراتے ہیں، جس سے توانائی زیادہ استعمال ہوتی ہے اورانہیں شاید مختصر اسپیل میں استعمال کیا جائے گا۔
پھر بھی ان کا تجربہ انگلینڈ کی بیٹنگ کے خلاف مددگارثابت ہو سکتا ہے، جن کے ڈی این اے میں ابھی بھی حملہ کرنا موجود ہے۔ کیٹن جیننگز انگلش لائن اپ میں واحد نیا چہرہ ہے جس نے نیوزی لینڈ، بھارت اور جنوبی افریقہ کے بالنگ اٹیک کو تقریباً تمام میچوں میں تباہ کیا۔
پاکستان کے مزید بیٹنگ فرینڈلی ٹریکس پر زیک کرولی، نک پوپ،جوروٹ، بین اسٹوکس اور ہیری بروک، بین ڈکٹ اورلیونگ اسٹون میں سے ہرایک بے رحم ہوگا۔فیلڈرزکی کمی کے ساتھ وہ اس دباؤ کو کیسے سنبھالتے ہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
آل راؤنڈرز کی طاقت
بین اسٹوکس کے ساتھ معیار کے حوالے سے انگلینڈ کو واضح طور پر برتری حاصل ہے۔ سلمان علی آغا، محمدنواز اور فہیم اشرف کے ساتھ پاکستان میں آ راؤنڈرزتعداد زیادہ ہے۔ کون سے دو کھلاڑٰ کھیلیں گے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان کون سی حکمت عملی اپناتا ہے اورپچ کی نوعیت کیسی ہے۔
میں سلمان علی آغا جو آف اسپن بولنگ کرتے ہیں اوربائیں ہاتھ کے محمد نواز کو کھیلتے دیکھ رہا ہوں ، کیونکہ پاکستان کا اسپنرز کے ساتھ حملہ کرنے کا امکان نظر آتا ہے جیسا کہ وہ عام طور پر ملکی ٹیسٹ میں کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں بھی اس نے اسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تھا۔
تاہم، معیار کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ سلمان علی آغا نے سری لنکا میں چار اننگز میں نصف سنچری بنائی جبکہ باقی تین اننگز میں وہ صرف 21 رنز بنا سکے۔
محمد نوازنے بھی مایوس کنکارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ 19 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے، جب ابھی 39 کی ضرورت تھی اور 4 وکٹیں باقی تھی،تاہم پاکستان نے سری لنکا کے خلاف پہلا ٹیسٹ جیتا تھا ۔ اس کے علاوہ، وہ تین کوششوں میں صرف 29 ہی بناسکے۔
ان کی باؤلنگ بھی زیادہ اچھی نہیں تھی،محمد نوازنے صرف 88 رنز پر 5 وکٹیں لے کر ایک اچھی واپسی کی،محمد نواز نے دیگر تین میچزمیں تین وکٹین اورسلمان علی آغا نے دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں واحد وکٹ حاصل کی۔
اور یہ سری لنکا کی پچز پر حاصل کی تھیں جو پاکستانی پچوں سے بھی زیادہ اسپن کرنے کے قابل تھیں۔ اس سیزن میں سلمان نے ریڈ بال کرکٹ میں نو میچوں میں 50 کی اوسط سے سات وکٹیں حاصل کیں۔
اگر پاکستان تیزرفتار آل راؤنڈر کی تلاش کرتا ہے تو فہیم اشرف واحد آپشن ہیں، اگرچہ کہ چھ میچوں میں 46اعشاریہ13 کی اوسط سے آٹھ وکٹیں لے کر وہ عامرجمال کے مقابلے میں کافی نیچے ہیں، جنہوںنے آٹھ میچوں میں 31اعشاریہ54 کی اوسط سے 25 وکٹیں حاصل کیں۔
شاید ان کی بلے بازی نے انہیں اس سیزن میں سنچری اور 50 سے زیادہ کی اوسط سے آگے بڑھایا۔ عامرجمال نے 8 اننگز میں 25 سے کم 171 رنز بنائے ہیں۔
ایک گھماؤ دینا
پاکستان نے نعمان علی، زاہد محمود اور ابرار کو اپنے ماہر اسپنرز کے طور پرمنتخب کیا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی متاثرکن نہیں ہے۔ نعمان علی سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں غیر موثررہے جہاں مخالف اسپنرز نے کامیابی حاصل کی۔ آسٹریلیا کے خلاف ملک میں انہوں نے مشکل ہی سے کوئی وکٹ حاصل کی ہو جبکہ نیتھن لیون نے تقریبا دو بار آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کیا۔
میں حیران ہوں کہ انہیں ظفرگوہر سے پہلے منتخب کیا گیا ہے جن کا سیزن اچھا گزررہا ہے۔ نعمان علی نے اس سیزن میں آٹھ میچوں میں 49اعشاریہ32 کی مضحکہ خیزاوسط سے 19 وکٹیں حاصل کیں۔
ظفرگوہر کے پاس 26اعشاریہ62 کی اوسط سے 3 گیمز میں 13وکٹیں ہیں۔ ان کے پاس ان انگلش بلے بازوں کو کاؤنٹی کرکٹ میں کھیلنے کا تجربہ بھی ہے اور وہ بلے بازی میں بھی بہترہیں۔
میں تجربے کے حوالے سے انتخاب سمجھ سکتا ہوں لیکن موجودہ فارم اوراس سال ٹیسٹ میں ان کی نااہلی کو دیکھتے ہوئے نعمان علی کی شمولیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
زاہد محمود نے ابھی تک کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا ہے حالانکہ وہ 2021ء سے ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 150 سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہیں اورگزشتہ کچھ سال میں پاکستان نے تقریباً ہمیشہ یاسر شاہ کے لیگ اسپن سے حملہ کیا ہے خاص طور پر ہوم سیریز کی پچز پر۔
نہ تو یاسرشاہ اورنہ ہی زاہد محمود کے پاس اس سیزن میں 15 سے زیادہ وکٹیں ہیں حالانکہ زاہد محمود نے کم میچز کھیلے ہیں اورزاہد محمود کو شاید آزمانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ یاسر شاہ نے گرمیوں میں سری لنکا کے خلاف واپسی پرمتاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
تاہم ابرار کا کھیل دیکھنے کے لائق ہونا چاہئے، وہ پراسراراسپنر جس نے اس سیزن میں تباہی مچا دی ہے اوربلے باز یہ سوچتے ہیں کہ اس کی ڈلیوری کس طرف آئے گی۔
وہ چھ میچوں میں 21اعشاریہ95 کی اوسط سے حیران کن 43 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں اور سلیکٹرزکو اس بات کے لیے سراہا جانا چاہیے کہ وہ ان کی کامیابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب انہوں نے اسے ستمبر میں پاکستان ٹی20 اسکواڈ میں شامل کیا تھا۔
اس سال ٹیسٹ میں پاکستانی اسپنرز کے اثرمیں کمی کو دیکھتے ہوئے انہیں انگلش مینز پر پہلا شاٹ مارنا چاہیے، روایتی طور پروہ معیاری اسپنرز سے محتاط رہتے ہیں۔
یہ اس پر منحصر ہے کہ پاکستان کی قیادت کیسے کی جاتی ہے۔ بابراعظم ایک محتاط کپتان ہیں، جو کھیل کو آگے بڑھانے اور روایتی میدانوں کو ترتیب دینے کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں خاص طور پرزیادہ حملے کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ بین اسٹوکس کرتے ہیں اوران کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
انگلش بلے بازوں کو اس بات کا موقع دیں گے کہ اندازہ لگایا جائے کہ کوچ برینڈن میک کولم کی قیادت میں اپنا کھیل کیسے کھیلتے ہیں۔ یہ بابراعظم اور پاکستانی ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو کیسے دیکھتے ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پیدا کریں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News