
سڈنی میں جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی نے پاکستانی کھلاڑیوں کا اعتماد ضرور بحال کیا ہوگا۔ اگر بارش کی وجہ سے جنوبی افریقہ کے جھ اوورز کم نہ بھی ہوئے ہوتے تب بھی پاکستان کے لیے اس میچ میں کامیابی یقینی تھی۔
اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں کہ جن کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی تھی وہ درست ثابت ہوئی ہیں اور پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات انتہائی حد تک معدوم ہو چکے ہیں۔
اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ اگر پاکستان بنگلہ دیش کو ہرا بھی دے تب بھی اسے امید کرنی ہوگی کہ یا تو جنوبی افریقہ کو ہالینڈ سے شکست ہو جائے یا پھر بھارت کو زمبابوے کے خلاف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے، بس یہی صورت ہوگی کہ پاکستان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو سکے۔
ہندوستان اور بنگلہ دیش کا میچ اگر بارش کی نذرہوتا ہے تو ہندوستان ٹوٹل 7 پوائنٹس کے ساتھ گروپ میں سرفہرست ہوگا اور پاکستان اپنے 6 پوائنٹس کے ساتھ کوالیفائی کر جائے گا۔ لیکن اگر ساؤتھ افریقہ اور نیدرلینڈ کا میچ بارش سے متاثر ہوا تو یہ پاکستان کے لیے بری خبر ہوگی کیونکہ سپر 12 میں زیادہ فتوحات کی بنا پر وہ پاکستان پر سبقت لے جائے گا۔
جو بھی ہو، اس ورلڈ کپ کے حوالے پاکستان کی تڑپ میں کمی آنا اب ممکن نہیں۔ اوپننگ جوڑی جو اب تک رنز بنانے میں کامیابی پر فخر محسوس کرتی رہی تھی، ورلڈ کپ کے آغاز سے ہی اپنے کمزور اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ساتھ کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں بھی ناکام رہی۔
شروع سے ہی یہ خدشات تھے کہ ان تیز اور باؤنسی وکٹوں پر ان کی یہ حکمت عملی زیادہ دن نہیں چل سکے گی مگر ٹیم مینیجمنٹ اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی۔
دو شاندار نصف سنچریوں کے ساتھ صرف افتخار احمد ہی ہیں جنہوں نے اپنے حوالے سے موجود تمام تحفظات کا خاتمہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ شاداب خان اور محمد نواز نے اپنی اسپن باؤلنگ کے ذریعے متاثر کیا۔
اور اگرچہ شان مسعود نے ہندوستان اور زمبابوے کے خلاف اچھی اننگز کھیلیں مگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی ضرورت کے تناظر میں ان کی دونوں اننگز بے سود ثابت ہوئیں۔
ڈیوڈ ملر کی عدم دستیابی کے علاوہ یہ شاداب خان کے 22 گیندوں پر 52 رنز تھے جنہوں نے جنوبی افریقہ کی جیت کی تمام امیدیں ختم کر دی تھیں۔
محمد نواز نے یہ اننگز افتخار احمد کے ساتھ شراکت کے دوران اس وقت کھیلی جب پاکستان 43 رنز پر 4 کھلاڑیوں کے نقصان کے ساتھ مشکلات کا شکار تھا، ان دونوں نے مل کر پاکستان کو بحرانی کیفیت سے نکالا اور اسکور کو 95 تک لے گئے۔ تب محمد نواز کا غلط فہمی میں آؤٹ کا واقعہ پیش آیا جب امپائر نے انہیں ایل بھی ڈبلیو آؤٹ قرار دیا۔ وہ امپائر کی طرف دیکھے بغیر رن لینے دوڑ پڑے جس کے دوران فیلڈر نے انہیں رن آؤٹ بھی کر دیا۔ ایل بی ڈبلیو آؤ دینے کے بعد بال ڈیڈ ہو جاتی ہے اور اس پر رن آؤٹ ہونا ممکن نہیں، جب کہ اگر نواز ڈی آر ایس ریویو کی اپیل کر دیتے تو وہ آؤٹ ہونے سے اس لیے بچ جاتے کہ گیند ان کے پیڈ پر لگنے سے پہلے ان کے بلے کا کنارہ چھو چکی تھی۔
اس سے قبل جنوبی افریقہ کے خلاف محمد حارث کی بیٹنگ دیکھ کر رضوان اور بابر دونوں کچھ شرمندہ ضرور ہوئے ہوں گے کہ پاور پلے میں بیٹنگ کیسے کی جاتی ہے۔
اگر پاور پلے میں اسٹرائیک ریٹ سے قطع نظر، آپ زیادہ رنز اسکور کرنے کی وجہ سے آئی سی سی کی رینکنگ میں سرفہرست ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مختصر دورانیے کے اس کھیل میں آپ کی حکمت عملی درست ہے۔
اس کے باوجود، اس ورلڈ کپ کے لیے منتخب کردہ 15 کھلاڑیوں پر ایک سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ کیا خوشدل شاہ اتنے کمزور کھلاڑی ہیں کہ جب کوئی اور چارہ نہ ہو تب بھی انہیں کھلانا مناسب نہیں سمجا گیا۔
اور یہ کہ ایک وکٹ کیپر بلے باز کو ریزرو سے صرف مجبوری میں استعمال کے لیے لایا گیا اور پھر سب سے زیادہ فیصلہ کن میچ کھیلنے کا موقع دیا گیا۔
شائقین اور میڈیا کی جانب سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا کہ اہم مقابلوں میں نوجوان کھلاڑیوں کو بھی موقع دیا جائے لیکن تب ٹیم مینجمنٹ کا جواب یہ ہوتا تھا کہ کچھ حالات تجزبے کا تقاضا کرتے ہیں۔
اور یہ کہ ایک نوجوان کھلاڑی کے ساتھ ناانصافی ہو گی کہ اسے اس وقت موقع دیا جائے جب سب کچھ داؤ پر لگا ہو۔ اس بار پھر بھی انہوں نے خوشدل شاہ پر محمد حارث کو فوقیت دی حالانکہ منیجمنٹ خوشدل کو اس عذر کے ساتھ لے کر گئی تھی کہ وہ ورلڈ کپ کے لیے ایسے کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں جو پچھلے ایک سال سے فائنل الیون کا حصہ رہے ہیں۔
ایک ریزرو وکٹ کیپر کے طور پر لائے گئے ناتجربہ کار کھلاڑی کو اتنے بڑے مقابلے کے اس قدر حساس میچ میں آزمایا جانا حیران کن ہے۔
پاکستان کے لیے اب تک یہ ایک ایسا ورلڈ کپ رہا ہے جس میں شائقین، ناقدین اور خیر خواہوں کے سب سے بڑے خوف (شاید کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ کے بھی) درحقیقت خود ان کے اپنے تصور سے بھی باہر ہیں۔
یقینی طور پر زمبابوے سے ہارنا بھی اس میں شامل ہے، خاص طور پر نچلی رینک والی اس ٹیم کے خلاف جسے سپر 12 راؤنڈ کے لیے بھی کوالیفائی کرنا پڑا تھا۔
اس میچ کو دیکھنے کے بعد یہ بات تو طے ہے کہ اتنے سالوں بعد بھی ہم میں کھیل سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے، یعنی تقریباً سات رن فی اوور کی ضرورت ہو اور سات وکٹیں بھی ہاتھ میں ہو تو آپ اونچے اور طاقت ور اسٹروک کھیلنے کی کوشش ترک کر دیتے ہیں اور صرف دو تین رنز اور وقتاً فوقتاً ایک آدھ چوکے کی مدد سے مخالف ٹیم پر دباؤ بنائے رکھتے ہیں۔
2 گیندوں پر 3 رنز کی ضرورت تھی اور نواز جانتے تھے کہ اب ان کے علاوہ اور کوئی نہیں بچا ہے پھر بھی وہ اونچا شاٹ کھیلے۔ ایک سنگل رن زیادہ مناسب ہوتا جو اس وقت آسانی سے بنانا ممکن بھی تھا تو باقی دو رن اگلی گیند پر وسیم بھی بنا سکتے تھے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ میچ سپر اوور تک چلا جاتا۔
اس کے بعد شاہین شاہ آفریدی کو آخری گیند پر 3 رنز بنانے کے لیے بھیجنے میں خطرہ یہ تھا کہ انہیں رن مکمل کرنے کے لیے ڈائیو لگانی پڑ سکتی ہے، لہٰذا اس کام کے لیے ان کا انتخاب آخری چارے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔
لیکن حارث رؤف نے بھارت کے خلاف یہ ثابت کیا تھا کہ ان میں زوردار شاٹ لگانے کی صلاحیت ہے۔ نسیم شاہ نے ایشیا کپ میں افغانستان کے خلاف ایسا کرکے دکھایا تھا۔
ہاں، شاہین آفریدی میں طاقت ور شاٹ مارنے کی صلاحیت تھی اور میں یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ انہیں ان کے نارمل نمبر پر بھیجا گیا تھا۔ لیکن یہ غور کیا جانا بھی ضروری تھا کہ پاکستان کو مستقبل کے مقابلوں کے لیے ان کی کتنی ضرورت ہے۔
اور نیدرلینڈ سے ہونے والے اگلے مقابلے میں کچھ ایسا ہی ہوا جب ایک ڈائیو لگاتے ہوئے فخر زمان کو اسی گھٹنے میں چوٹ لگی جو حال ہی میں ٹھیک ہوا تھا۔ ان کو چوٹ لگنے کی خبر نے اتنی تکلیف نہیں دی جتنی تکلیف ٹیم کے ڈاکٹر، ڈاکٹر نجیب اللہ سومرو کے جاری کردہ بیان کو سن کر ہوئی۔
یہ مضحکہ خیز حد تک ایماندارانہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فرائضِ منصبی کی مناسبت سے یہ بیان بہت مضحکہ خیز ہے۔ ان کے مطابق:
’’ظاہر ہے کہ گھٹنے کی کسی بھی انجری کے ساتھ سو فیصد ریکوری میں وقت لگتا ہے۔ فخر اور ٹیم (منیجمنٹ) ٹورنامنٹ میں ان کی شمولیت کے خطرات سے آگاہ تھے اور اس کے باوجود ہم نے انہیں ٹیم میں شامل کیا۔ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے آخری میچ میں کیسی کارکردگی دکھائی، بدقسمتی سے آخری میچ میں ان کا گھٹنا مڑنے کے سبب ان کی (پرانی) چوٹ بڑھ گئی۔‘‘
’’ہم ان کی واپسی کے خطرات سے آگاہ تھے۔ وہ ظاہر ہے ٹیم کے لیے ایک اہم کھلاڑی ہیں۔ کھلاڑی، طبی عملے اور ٹیم انتظامیہ اس سے واقف تھے۔ ہم نے انہیں واپس لانے کا فیصلہ کیا۔ کرکٹ ہو یا اور کوئی بھی کھیل، ہم خطرات مول لیتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔‘‘
ذرا ملاحظہ کیجیے وہ یہاں کیا کہہ رہے ہیں، میں اسے دہراتا ہوں، ’’ فخر اور ٹیم (منیجمنٹ) ٹورنامنٹ میں ان کی شمولیت کے خطرات سے آگاہ تھے‘‘ بہت خوب! ایسا لگتا ہے کہ ایک ڈاکٹر مریض اور اس کے اہل خانہ کو بتا رہا ہے کہ سرجری میں کچھ خطرات ہوتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا ان پر منحصر ہے کہ آیا وہ اسے کروانا چاہتے ہیں یا نہیں۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ فخر (اور میری رائے میں ان کے ساتھ ساتھ ثقلین اور بابر) پر چھوڑ دیا گیا تھا، بجائے اس کے کہ میڈیکل بورڈ فیصلہ کرے کہ فخر کو کھیلنا چاہیے یا نہیں۔
درحقیقت اب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فخر ٹورنامنٹ میں آنے کے لیے بالکل فٹ نہیں تھے کیونکہ وہ نہ تو وارم اپ گیمز میں کھیلے تھے اور نہ ہی پہلے دو گیمز، یہاں تک کہ جب ٹیم کو ہندوستان کے خلاف ان کے تجربے کی ضرورت تھی تب بھی وہ دستیاب نہیں تھے۔
پھر اس جملے کا دوسرا حصہ سنیں، ’’ اس کے باوجود ہم نے انہیں ٹیم میں شامل کیا‘‘ یہ مجھے یونیورسٹی کا وہ وقت یاد دلاتا ہے جب ایک ہم جماعت نے ہمیں بتایا کہ کس طرح اس نے اور اس کے دوستوں نے ایک دوست کو کار کی ڈکی میں قالین کے نیچے چھپا کر یورپ اسمگل کیا تھا!
پھر توجہ مرکوز کریں: ’’ ہم ان کی واپسی کے خطرات سے آگاہ تھے۔‘‘ یعنی خطرات تھے، ٹھیک ہے جب آپ عالمی ٹورنامنٹ میں جاتے ہیں تو آپ ایسے عذر پیش نہیں کرتے ہیں۔ جب تک کہ آپ 1983ء کے عمران خان نہ ہوں جو پنڈلی کے فریکچر کے ساتھ چلے جائیں جو آپ کو باؤلنگ نہیں کرنے دیتا مگر آپ ایک ماہر بلے باز کے طور پر کھیلتے ہیں۔‘‘
یا پھر آپ 1992ء کے عمران خان ہیں جو کندھے کی چوٹ کے ساتھ گئے ہیں اور درد کو کم کرنے کے انجیکشن لے رہے ہیں لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپ پچھلے ایک سال سے جس رفتار سے باؤلنگ کر رہے ہیں اسی رفتار سے گیند کر سکتے ہیں اور ایک بلے باز کے طور پر بھی ٹیم میں اپنی جگہ ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں۔
یا پھر آپ 1992ء کے ورلڈ کپ کے جاوید میانداد ہیں اور کمر کی انجری کے باوجود کھیلتے ہیں اور ٹورنامنٹ کے سرفہرست بلے بازوں میں دوسرے نمبر پر رہتے ہیں۔
شاہین شاہ آفریدی کے بارے میں، ایک چھپا ہوا اشارہ یہ ہے کہ شاید وہ اپنی بہترین فارم میں نہیں تھے، حالانکہ اس ڈاکٹر نے پوری طرح انصاف کیا جب کہ شاہین ان کے زیر علاج بھی نہیں تھے۔ پاکستانی تیز گیند باز کے بارے میں ان کے الفاظ یہ تھے:
’’ ایک تو میڈیکل فٹنس ہے، پھر میچوں میں آپ کو مختلف قسم کی کارکردگی کی خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبی نقطہ نظر سے ہمیں یقین تھا کہ وہ مکمل طور پر فٹ ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح ہر ایک کھیل کو بہتر بنا رہے ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر سے ہم اس بات پر بہت پراعتماد ہیں کہ وہ اب کیسے بہتر ہو رہے ہیں۔ میری نظر میں، میڈیکل ٹیم اور اس میں شامل ماہرین نے ان کے ساتھ دن رات بہت محنت کی ہے اور طبی نقطہ نظر سے ہمیں یقین ہے کہ وہ مکمل طور پر فٹ ہوگئے ہیں۔‘‘
اس بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ دوڑ سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ باؤلنگ کر سکتے ہیں؟ میرا مطلب ہے، کیا وہ ویسی ہی باؤلنگ کر پا رہے ہیں جیسی وہ چوٹ لگنے سے پہلے کر رہے تھے۔
یہ ثقلین اور بابر اور شاید شان ٹیٹ کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ اس صورت میں، انہیں پہلے نیوزی لینڈ بلایا جانا چاہیے تھا اور 15 تاریخ سے پہلے ان کا ٹیسٹ کیا جانا چاہیے تھا جب اسکواڈ میں تبدیلی بھی ممکن تھی۔
سچ پوچھیں تو انہوں نے دس ہفتے کی چھٹی کے بعد اتنا برا نہیں کیا لیکن پھر یہ بیانات اس طرح کیوں آرہے ہیں، ’’ میچوں میں آپ کو مختلف قسم کی کارکردگی کی خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ اور’’طبی نقطہ نظر سے ہمیں یقین ہے کہ وہ مکمل طور پر فٹ ہوگئے ہیں۔‘‘ طبی نقطہ نظر سے؟ کھیل کے نقطہ نظر سے نہیں؟
پی سی بی کے ڈاکٹروں پر بھروسہ نہ کرنے اور ان کے اپنے طور پر انگلینڈ روانہ ہونے کے بعد، جب اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فٹنس کی خرابیوں کے بعد اگر انکوائری شروع ہوتی ہے تو کوئی ہے جو واضح طور پر بچ نکلنے کے لیے مناسب بنیاد تیار کرنےکی کوشش کر رہا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان سیمی فائنل میں پہنچتا ہے یا نہیں۔
صہیب علوی 40 سال سے زائد عرصے سے کالم نگار، ایڈیٹر، تجزیہ کار، ٹی وی ماہر/میزبان کے طور پر اندرون اور بیرون ملک کرکٹ کو کور کر رہے ہیں۔ آئی بی اے سے ایم بی اے کیا، ان کا بیک وقت کارپوریٹ سیکٹر میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا 35 سالہ تجربہ ہے۔ اب وہ کلائنٹس کو قیادت، کاروباری حکمت عملی، مارکیٹنگ اور تنظیمی منصوبہ بندی کے بارے میں مشورے دیتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News