Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

محمود عباس کی اسرائیل کے دو ریاستی حل کے بیان کی حمایت ، کیا کسی نے توجہ دی ؟

Now Reading:

محمود عباس کی اسرائیل کے دو ریاستی حل کے بیان کی حمایت ، کیا کسی نے توجہ دی ؟

NEW YORK, NEW YORK – SEPTEMBER 23: Palestinian president Mahmud Abbas speaks at the 77th session of the United Nations General Assembly (UNGA) at U.N. headquarters on September 23, 2022 in New York City. After two years of holding the session virtually or in a hybrid format, 157 heads of state and representatives of government are expected to attend the General Assembly in person. Spencer Platt/Getty Images/AFP

فلسطینی صدر محمود عباس نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس   میں  اپنے  خطاب کے دوران عوام کے دکھوں کو  بیان  کرتے ہوئے عالمی برادری سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔انہوں نے دو ریاستی حل  کے حوالے  سے امریکی  صدر جو  بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم یائیر  لاپڈ سمیت عالمی رہنماؤں کی متفقہ حمایت حاصل کرنے کے بعد یہ  بات کی ہے ۔محمود عباس نے فوری طور پر بات چیت کا مطالبہ کیا  ہے ، جو بیت اللحم میں صدر جو بائیڈن کی طرف سے انہیں دیئے  گئے اس  مشورے سے متصادم ہے  کہ مسئلے کو فی الحال  آگے بڑھانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔یاسر عرفات اوراسحاق رابنکے وائٹ ہاؤس کے لان میں مصافحہ کرنے کے  29 سال بعد بھی فلسطین اسرائیل تنازع حل نہیں ہو  پا رہا ۔اگرچہ حل کے لیے واضح راستہ موجود ہے۔اس راستے کے لیےمحض سیاسی طور پر   جرات  کے مظاہرے کی  ضرورت ہے  جو بظاہر کہیں نظر نہیں آتی۔

فلسطینیوں نے  اسرائیل کی طرف سے غیر قانونی بستیوں کو ختم کرنے کے عزم کے بغیر،ستمبر 1993ء میں  پانچ سالہ عبوری منصوبے کو قبول کرنے کی  جان بوجھ کر  غلطی کی جس کا کوئی حتمی مقصد نہیں تھا۔اب دو ریاستی حل ریت کی طرح ان کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے اور اس وقت سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد  میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اس  مسئلے سے نمٹنے  میں   کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ،  ایک ایسے وقت میں جبکہ نومبر میں وہاں  عام   انتخابات   منعقد کرائے جارہے ہیں  ، اس کے باوجود  مقبوضہ علاقوں کے مستقبل پر کوئی بحث  نہیں کی جارہی ۔فلسطینی صدر اسرائیلیوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو مسترد کرنے کے لیے پُرعزم اور مستقل مزاج ثابت ہوئے ہیں، لیکن دائیں بازو کی ایک کے بعد ایک آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے  ان کے  ہاتھ  باندھ  رکھے ہیں ۔موجودہ قیادت نے فلسطینی سیاسی قیادت کے ساتھ بات چیت سے انکار کر کے مذاکرات کے اس پہلو کو بھی ماننے سے انکار کردیا ہےجونیتن یاہو انتظامیہ پیش کرے گی۔

ستمبر 1967ء میں عربوں کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب خرطوم میں عرب لیگ نے  مذاکرات نہ کرنے اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی ۔

اس کے باوجود اب  یہی  اسرائیلی رہنما  فلسطینیوں کے قومی حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔گذرتے سالوں کے دوران فلسطینی قیادت سے ایک بھی ملاقات  کی کوشش تک نہیں کی گئی ۔فلسطینی قیادت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانے اور ریاست فلسطین کی مکمل رکنیت کا مطالبہ کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔پہلے 2012ءمیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو ایک غیر رکن ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا، اس کے بعد 138 رکن ممالک نے فلسطین کو تسلیم  کرلیا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایک قدم آگے بڑھا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو قائل کیاجائے  کہ وہ فلسطین کو مقبوضہ ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔فلسطینی مستقل نمائندے کے مطابق کونسل میں9 مثبت ووٹ محفوظ ہیں، جبکہ  واحد رکاوٹ یہ ہے کہ ایک مستقل رکن ایسی قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔تو اب  گیند  صحیح معنوں میں عالمی عدالت  کے کورٹ میں  ہے ۔

فلسطین کا کہنا ہےکہ عالمی  برادری فلسطینیوں کی اپنی ریاست کی تعمیر کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ اور فوری طور پر دو ریاستی حل کے دوسرے نصف حصے کو تسلیم کرنے کے مطالبے کو بار بار اٹھایا جائے ۔آخر کار اگر   امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان نے اتنی ہمت نہیں  دکھائی کہ وہ 1967ء کی سرحدوں کی بنیاد پر ریاست فلسطین کو تسلیم کرسکیں ،پھر وہ یہ امید بھی کیسے کرسکتے ہیں  کہ  جب وہ دو ریاستی حل کی بات کریں گے تو کوئی ان پر یقین کرلے  گا؟اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہر رکن کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے جو دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔اس سطح کی پہچان بالآخر تنازع کو مزید مذاکرات کے آخری ہدف کی نوعیت پر مبنی نہیں رہنے دے گی، بلکہ    سرائیل اور فلسطین کی ریاست کے درمیان سرحدوں اور دیگر طریقوں پر کام کرنے کے قابل بنائے گی۔

Advertisement

بائیڈن انتظامیہ یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے امریکی قونصل خانہ اور واشنگٹن ڈی سی میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن ( پی ایل او) مشن کو دوبارہ کھولنے کے اپنے انتخابی وعدوں میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔امریکی محکمہ خارجہ نے  تو اسرائیل کی طرف سے امریکی فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ  کے قتل کی مکمل آزادانہ تحقیقات کی ضرورت پرسختی سے  تردید کی ہے۔اس میں واشنگٹن کی طرف سے ان  کی اپنی فوج کی “مصروفیت کے قواعد” پر نظرثانی کا مطالبہ  بھی شامل  کیا گیا ہے۔امریکہ  دو ریاستی حل کے حوالے سے اپنے  بیان  پر عمل کرتے ہوئے امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

فلسطینیوں کو حق خود ارادیت حاصل ہے، ایسے میں  فلسطینی قیادت اور عالمی رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس طرح کے حق کو دو ریاستوں کے ذریعے نتیجہ خیز دیکھناہوگا ۔

امریکہ 1948ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا، اب وقت آگیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ آزاد ی کے لیے   تڑپتے ہوئے  فلسطینیوں کی آواز پر لبیک  کہے ۔ اے ایف پی نے مزید رپورٹ کیا ہےکہ اسرائیل جان بوجھ کر دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور اسے امن عمل میں مزید قابل اعتماد شراکت دار نہیں سمجھا جا سکتا۔  فلسطینی رہنما محمود عباس اقوام متحدہ میں اس نکتے  کو اٹھا چکےہیں ۔ ان کا یہ تبصرہ اسرائیلی وزیر اعظم  یائیر  لاپڈ کے بیان کے  ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، لیکن  محمود عباس نے کہا کہ اس کا ثبوت فوری مذاکرات ہوں گے۔اپنی شکایات کو دہراتے ہوئے،  فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ یہودی ریاست نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے لوگوں کے خلاف “مکمل استثنیٰ” کے ساتھ کام کیا ہے اور یہ کہ امن کے امکانات پر فلسطینیوں کا اعتماد “مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں  کہا ہےکہ اسرائیل اپنی سوچی سمجھی پالیسیوں کے ذریعے دو ریاستی حل کو تباہ کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہاہے  کہ اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل امن  کے قیام پر یقین نہیں رکھتا۔لہذا، ہمارے پاس اب کوئی اسرائیلی ساتھی موجود نہیں ہے جس سے ہم بات کر سکیں۔محمود عباس  نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں زمینوں پر قبضے کی مہم میں مصروف ہے اور فوج کو فلسطینیوں کو مارنے یا دوسری صورت میں ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کی مکمل آزاد ی  دینے کا باعث بن رہا  تھا ۔ اسرائیل کو غصہ  دلانے کے لئے موازنہ کرنے والے انداز میں فلسطینی صدر  محمود عباس  کا کہنا تھا کہ  یہ درست ہےکہ  یہاں ایک  نسل پرست  حکومت قائم  ہے۔

بشکریہ: دی نیو عرب

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم اور سری لنکن صدر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت دینے پر اتفاق
ایشیاکپ؛ شاہد آفریدی قومی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کے لیے پُرامید
ایشیا کپ سپر فور، بھارت نے بنگلا دیش کو شکست دے کر فائنل کیلیے کوالیفائی کر لیا
وفاقی وزیر داخلہ کا درابن میں کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
بی ڈو نیویگیشن نظام پاکستان کی ترقی کا نیا سنگِ میل ہے، احسن اقبال
صدر مملکت کی درابن میں سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن پر مبارکباد
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر