Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کیوں چاہتی ہیں کہ امیر ممالک اس کی قیمت ادا کریں

Now Reading:

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کیوں چاہتی ہیں کہ امیر ممالک اس کی قیمت ادا کریں

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ جانتی ہیں کہ بلند ہوتے ہوئے سمندر، سیلاب اور شدید طوفان ان کے نشیبی ملک کے بڑے حصے کو نگل جانے کا خطرہ ظاہر کررہے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ کوئی بھی ایسے موسمیاتی بحران کی وجہ سے ہجرت پر مجبور نہ ہو جو انھوں نے پیدا نہیں کیا۔

حسینہ واجد نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ ’’لیکن میں آپ کو ایک بات بتا رہی ہوں: اگر سمندر 1 میٹر بھی بلند ہو جائے تو بہت سے چھوٹے جزائر والے ملک ختم ہو جائیں گے، اور ہم اپنے بہت سے جزیروں اور کچھ ساحلی پٹی کو بھی کھو سکتے ہیں۔‘‘

حسینہ واجد نے بیٹے سے ملاقات اور اپنی 76ویں سالگرہ منانے کے لیے ورجینیا کے حالیہ دورے کے دوران E&E نیوز سے بات کی۔ وہ ابھی نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب سے فارغ ہوئی تھیں جہاں انہوں نے اس موسمیاتی آفت کو روکنے کے وعدوں پر پورا نہ اترنے پر دنیا کے امیر ترین ممالک پر تنقید کی۔

وہ وعدے، اور ممالک کو موسمیاتی نقصانات کے لیے تیاری کرنے اور ان سے بازیابی میں مدد کرنے کے لیے درکار رقم، مصر میں آنے والے موسمیاتی مذاکرات کا مرکزی حصہ ہوں گے، اور بنگلہ دیش اس بات کی ایک اہم مثال ہے کہ اگر موسمیاتی وعدے پورے نہیں ہوتے تو مزید ممالک کیا تجربہ کر سکتے ہیں۔

اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھی، معاونین اور مشیروں کی فوج میں گھری، حسینہ واجد نے اس مایوسی کو مزید بڑھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ دولت مند ممالک نے وہ تعاون اور مالی اعانت فراہم نہیں کی جس کا وعدہ کیا تھا، اور پھر بھی بنگلہ دیش جیسے کمزور ممالک پر کوئلے کے استعمال پر تنقید کرتے ہیں کیونکہ وہ اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

Advertisement

 انہوں نے کہا،’’تمام ترقی یافتہ ممالک، جو پہلے ہی خود کو ترقی یافتہ بنا چکے ہیں۔ اب وہ ہم پر الزام لگانے جا رہے ہیں، ہم بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات،  خوراک، تعلیم، رہائش اور ملازمت کے مواقع ملیں۔‘‘

بنگلہ دیش، بہت سے آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ممالک کی طرح، کرہ ارض کو گرم کرنے والے اخراج میں صفر6اعشاریہ فیصد سے بھی کم کے ذمہ دار ہے لیکن یہ اس کے نتائج کو برداشت کرنے پر مجبور ہے کیونکہ زیادہ بارشیں اور گلیشیئرز پگھلنے سے سیلاب اور کٹاؤ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جب کہ بلند ہوتے سمندروں سے نمکیات، کھیت کی مٹی اور پانی کو آلودہ کرتے ہیں، جس سے زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔

کئی بڑے دریاؤں کی گزرگاہ اور سندربن کہلانے والے ایک بڑے مینگروو جنگل کا گھر، بنگلہ دیش مسلسل درجہ حرارت میں اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔

حسینہ واجد نے بطور وزیر اعظم اپنے دہائی سے زیادہ طویل اقتدار کے دوران تیز رفتار اقتصادی ترقی اور موسمیاتی حوالے سے بہتری لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے تنازعات کا بھی سامنا کیا ہے: ہجرت کے خلاف ان کا موقف پناہ گزینوں تک پھیلا ہوا ہے جو دوسرے ممالک سے پناہ کی تلاش میں آتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اقوام متحدہ سے میانمار سے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی طویل موجودگی سے معیشت اور ماحولیات پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں خوراک اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ان کی انتظامیہ کے معاشی فوائد کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات انتہائی شدید ہو چکے ہیں۔

Advertisement

ہجرت: ناکامی یا ضرورت؟

جب حسینہ کے والد، شیخ مجیب الرحمان 1971 ء میں ملک کے بانی صدر بنے، تو انہوں نے طوفان سے بچانے والی پناہ گاہوں کی تعمیر اور آنے والی آفات، جیسے استوائی طوفان یا سیلاب سے خبردار کرنے کے لیے ایک ملک گیر نظام کا نفاذ کیا۔

لیکن اقتدار پر ان کی گرفت تیزی سے سخت ہوتی گئی، اور 1975 ء میں قاتلوں نے انہیں، ان کی والدہ اور ایک درجن سے زیادہ دوسرے رشتہ داروں کو فوجی قیادت میں بغاوت میں مار ڈالا۔ حسینہ واجد، جو اس وقت بنگلہ دیش سے باہر تھیں اور برسوں سے واپس نہیں آ سکی تھیں، نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ مہاجر بننا کیسا ہوتا ہے۔

سمندر کی سطح میں اضافہ، سیلاب اور کٹاؤ پہلے ہی بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد کو بے گھر کر چکے ہیں۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے سدباب کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 ء تک، 13 ملین سے زیادہ لوگ ملک کے اندر ہجرت پر مجبور ہو سکتے ہیں ۔

2009ء میں دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بننے اور کوپن ہیگن، ڈنمارک میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد سے حسینہ نے اس امکان کے خلاف مزاحمت کی ہے۔

اس سال کا اجلاس ختم ہونے کے بعد ، حسینہ واجد نے کہا کہ وہ فکر مند لیکن پرعزم ہو کر وطن لوٹی ہیں۔ انہوں، ترقی پذیر ممالک میں سب سے پہلے،ایک قومی موسمیاتی تبدیلی کی حکمت عملی وضع کرنے میں مدد کی، اور بنگلہ دیش کی آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو بحال کرنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت کو فنڈ دینے کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق، ملک اس وقت اپنے سالانہ بجٹ کا تقریباً 7 فیصد موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پذیری پر خرچ کررہا ہے۔

Advertisement

انہوں نے ساحلی علاقوں کو طوفانوں، اور نمکیات کے مزاحم چاول ، جو سمندری پانی میں ڈوبے رہنے کے باعث نمک کی زیادہ مقدار والی مٹی میں اگائے جا سکتے ہیں، کی فصل کو بچانے کے لیے مینگروو کی بحالی میں بھی سرمایہ کاری کی ہے – یہ تمام ڈیلٹا خطے کو مزید پائیدار بنانے کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے۔ بنگلہ دیش بے زمین خاندانوں کو مفت رہائش فراہم کرنے کے پروگرام پر بھی عمل پیرا ہے۔

حسینہ واجد نے کہا، ’’میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اس کی بنیاد ہمارے دیہات کو ترقی دینے پر ہے۔‘‘

بنگلہ دیش کی موسمیاتی تغیر سے مطابقت پذیری کی کوششوں نے عالمی توجہ حاصل کی ہے اور دیگر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ممالک کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار ممالک کی ایک تنظیم، کلائمیٹ ویلنریبل فورم کی گزشتہ سال کے سربراہ کے طور پر، بنگلہ دیش نے ایک موسمیاتی خوشحالی کا منصوبہ شروع کیا جس کا مقصد اقتصادی ترقی، روزگار کی تخلیق اور لچک کو فروغ دینے کے لیے موسمیاتی کارروائی سے فائدہ اٹھانا ہے۔ فورم میں شامل ممالک اب اسی طرح کے منصوبے اپنا رہے ہیں۔

لیکن حکومت بین الاقوامی مبصرین کی جانب سے ماحولیاتی سرگرمی کو دبانے کی کوششوں اور رکازی ایندھن کے استعمال کے خلاف مظاہروں کے ساتھ سخت انداز سے نمٹنے کی وجہ سے بھی جانچ کی زد میں آئی ہے۔

داخلی نقل مکانی بھی ملک کے پر ہجوم دارالحکومت ڈھاکہ پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے، جس کی وجہ سے سیکورٹی اور صفائی ستھرائی کے بارے میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی کے ماہر اور بین الاقوامی مرکز برائے موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے ڈائریکٹر سلیم الحق نے کہا، وہ (حسینہ واجد) نہیں چاہتیں کہ لوگ ہجرت کریں۔ وہ اسے ناکامی کے طور پر دیکھتی ہیں۔‘‘

Advertisement

تاہم، وہ بنگلہ دیشی وزیراعظم کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا اگرچہ لچک پیدا کرنا ضروری ہے، تاہم جو کچھ آنے والا ہے اس کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرنا بھی ضروری ہے۔

سلیم الحق کا کہنا تھا،’’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ہجرت کرنے اور ان کی مدد کرنے کے قابل بنانے کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔‘‘

ایک مشکل لمحہ

بنگلہ دیش کو درپیش چیلنجز توانائی تک وسیع ہیں۔ ملک درآمد شدہ کوئلے، تیل اور کچھ قدرتی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ بلند نرخوں نے حکومت کو ایندھن کی قیمتیں بڑھانے اور ڈیزل سے چلنے والے بجلی گھروں پر کام معطل کرنے پر مجبور کردیا ہے، جس سے بجلی کی قلت اور بلیک آؤٹ نے جنم لیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ اگست میں اسکولوں، بینکوں اور سرکاری دفاتر سے کہا گیا تھا کہ وہ بجلی بچانے کے لیے اوقات کار محدود کریں۔

حسینہ واجد نے کہا، ’’ہم توانائی خرید رہے ہیں، لیکن اس وقت یہ، واقعی مشکل وقت ہے،‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اسی لیے میں نے لوگوں سے کہا کہ ہمیں بہت محتاط رہتے ہوئے اس کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

Advertisement

گزشتہ سال کے موسمیاتی مذاکرات میں، حسینہ واجد نے کہا کہ بنگلہ دیش کا ہدف 2041ء تک قابل تجدید توانائی کا حصہ 40 فیصد تک بڑھانا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کوئلے سے چلنے والے مزید بجلی گھروں کے منصوبے ختم کردیے ہیں۔

ای اینڈ ای نیوز کے ساتھ انٹرویو میں، انہوں نے ایک اور مقصد پر زور دیا: ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا اور لوگوں کو، خاص طور پر ایسے دیہات میں جو موسمیاتی اثرات کا شکار ہیں، بجلی کے فوائد فراہم کرنا۔

 انہوں نے کہا،’’پھر ہم بہت سی صنعتیں قائم کر سکتے،اور روزگار کے اچھے مواقع مہیا کرسکتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑی مدد ہو گی۔‘‘

بنگلہ دیش اب بھی قابل تجدید تونائی کے ذرائع کو بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن وہ کوئلے پر مبنی پاور پلانٹس بھی بنا رہا ہے جسے حسینہ واجد نے ’’زیادہ تر انتہائی ناگزیر‘‘ قرار دیا۔ کچھ صاف توانائی کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ درآمدی توانائی پر مسلسل انحصار کی قیمت بھی چکانی پڑے گی۔

حسینہ واجد نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو 2025ء تک سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کریں تاکہ وہ اپنی معیشتوں کو زیادہ پائیدار اور لچک دار بنائیں۔

مصری وزیر خارجہ اور مصر میں آئندہ موسمیاتی مذاکرات کے نامزد صدر سامح شکری نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ یہ رقم ’’حقیقی موسمیاتی ضروریات کی تکمیل سے زیادہ اعتماد اور یقین دہانی کی علامت ہے۔‘‘

Advertisement

لیکن حسینہ واجد پرامید ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک موسم گرما کے بعد موسمیاتی مالیات کے وسیع فرق کا حل تلاش کرنے کے لیے زیادہ تیار ہو سکتے ہیں جب کہ امیر ممالک بھی گلوبل وارمنگ کے اثرات کو پیچھے چھوڑنے سے قاصر تھے۔

ایک تجویز جو انہوں نے پیش کی : روس کے حملے کے خلاف یوکرین کو لڑائی کے لیے فنڈز دینا بند کریں اور ان فنڈز کو اپنے جیسے کمزور ممالک کی مدد کے لیے وقف کردیں۔

بشکریہ: ای اینڈ ای نیوز

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
’’کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ‘‘ قطر پرحملہ امریکا پر حملہ تصور ہو گا،ٹرمپ کا نیا حکم
فورسز کی بلوچستان میں تابڑ توڑ کارروائیاں، 13 بھارتی اسپانسرڈ دشتگرد واصل جہنم، 2 جوان زخمی
بھارتی میڈیا کا جھوٹا پروپیگنڈہ بے نقاب، محسن نقوی کا کرارا جواب
آئندہ مالی سال کا بجٹ ایف بی آر نہیں بنائے گا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
خضدار میں آپریشن،فتنتہ الہندوستان کے خواتین کے لباس میں 4 دہشتگردگرفتار
ابھیشیک شرما کا نیا ریکارڈ، صائم ایوب آل راؤنڈرز میں نمبر ون، نئی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ جاری
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر