کہتے ہیں وقت سارے زخم بھر دیتا ہے۔ لیکن ریاست گجرات میں انتخابات کے وقت نے 2002 ء کے زخموں کو پھر سے تازہ کردیا ہے،جن سے خون رس رہا ہے۔
اس انتخابی موسمم نے بی جے پی کو خوفناک فسادات کے متاثرین کے زخموں پر بے خوفی کے ساتھ نمک پاشی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
پہلے، ریاست اور مرکز کی بی جے پی کی حکومتوں نے 2002 ء میں بلقیس بانو عصمت دری کیس کے 11 مجرموں کو رہا کرنے کے لیے ملی بھگت کی۔ ان افراد کو ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے 9 افراد کو قتل کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔ اس کی تین سالہ معصوم بچی کا سر پتھر سے کچل دیا گیا تھا۔ مجرموں نے یہ جرائم ایک ہی رات میں کیے تھے۔
رہائی کے بعد ان افراد کو ہار پہنائے گئے اور انتہائی غیر اخلاقی انداز میں مٹھائیاں پیش کی گئیں۔ ملزمان کے خلاف مقدمے کو بگاڑ دینے پر وسیع پیمانے پر غم و غصے کے باوجود، بی جے پی نے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا۔ عصمت دری کرنے والے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور ان کی واہ واہ ہورہی ہے ، جب کہ بلقیس بانو ریاست اور حکمران جماعت کے ہاتھوں نئی ناانصافی پر خوف اور مایوسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی) ایم ایل اے (نے عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو ’’سنسکاری برہمن‘‘ قرار دیا۔ انہیں اگلے ماہ ہونے والے گجرات کے انتخابات میں گودھرا کی نشست کے لیے بی جے پی کے امیدوار کے طور پر ایک اور نامزدگی سے نوازا گیا ہے۔
اس کے بعد بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کی نفسیات پر سب سے زیادہ صریح حملے ہوتے ہیں۔ پارٹی نے نرودا پاٹیا قتل عام کے مجرم کی بیٹی کو گجرات کے انتخابی امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے۔
نرودا سے بی جے پی کی امیدوار پائل ککرانی منوج ککرانی کی بیٹی ہے جسے آزاد ہندوستان کی تاریخ کے بدترین قتل عام میں سے ایک میں سزا سنائی گئی تھی۔
یہ شخص کھلے عام ، گویا یہ کوئی بری بات ہی نہیں ہے، اپنی بیٹی کے لیے اسی علاقے میں انتخابی مہم چلا رہا ہے جہاں اس نے اور اس کے فسادیوں کے گروہ نے 2002 ء میں مسلمانوں کے خلاف کچھ انتہائی ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
28 فروری 2002 ء کو نرودا پاٹیا میں ایک فسادی ہجوم کے ہاتھوں 97 افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے کو بعد میں فسادات کے دوران ’’اجتماعی قتل کا سب سے بڑا واحد کیس‘‘ قرار دیا گیا۔ کئی عینی شاہدین نے بتایا کہ قتل کرنے سے پہلے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ منوج ککرانی نرودا پاٹیا کیس کے 32 مجرموں میں سے ایک تھا۔
ستمبر 2016 ء میں، گجرات ہائی کورٹ نے ککرانی کو ضمانت دے دی جب اس کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ وہ ’’مکمل طور پر بستر سے لگے ہوئے ہیں اور روزمرہ کے کام انجام دینے کی حالت میں بھی نہیں ہیں‘‘ اور یہ کہ ان کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔
اور یہاں وہ اپنی بیٹی اور بی جے پی کے لیے مہم چلا رہے ہیں، جیسا کہ میری ساتھی تنوشری پانڈے نے اطلاع دی ہے۔
بی جے پی گجرات اور پورے ملک کے مسلمانوں کو کیا پیغام دے رہی ہے؟ کہ ان کے خلاف جرائم سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہ مجرموں کو شیر کیا جائے گا اور انعام دیا جائے گا۔ کہ مسلمانوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ بی جے پی کی نگرانی میں، کسی دیرپا انصاف کی امید بہت کم ہے۔ اگر عدالتیں بھیانک جرائم کے متاثرین کو تاخیر سے انصاف فراہم کرتی ہیں تو بھی بی جے پی عدالتی فیصلے کو واپس کروانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور مسلمانوں کی تذلیل اور انہیں نشانہ بنانے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔
بی جے پی کی گجرات حکومت کی جانب سے مجرموں کی تحسین اور انہیں ہیرو بنا کر پیش کرنے سے کیا ظاہر کرنا چاہتی ہے؟ کہ تقریباً تین دہائیوں تک ریاست پر حکومت کرنے کے بعد، وہ اب بھی مانتی ہے کہ 2002 ء کا تشدد اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ اور پارٹی ، ووٹروں کے ذہنوں میں 20 سال پہلے کی خونریزی کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ پارٹی یہ چاہتی ہے کہ ووٹر فسادات کو یاد رکھیں اور ان کا جشن منائیں – اور یہ ) بھی یاد رکھیں (کہ مسلمانوں کو ان کی اوقات میں کیسے رکھا جائے۔
یہ گجرات کے ووٹروں کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ کہ جب تک متاثرین مسلمان ہیں، اسے مجرموں کی تحسین کرنے اور انہیں ہیرو بنانے پر کوئی تشویش نہیں ہوگی۔ جن مردوں کو آج نرودا اور داہود ، جہاں بلقیس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی، کی سڑکوں پر ہار پہنائے جا رہے ہیں انہیں کچھ انتہائی گھناؤنے جرائم میں سزا سنائی گئی ہے۔ لوگ اپنے درمیان ایسے مردوں کو پاکر کیسے آرام سے رہ سکتے ہیں؟ کیا مسلمانوں سے نفرت غلط اور صحیح کے اخلاقی پیمانے سے بھی بڑھ کر ہے؟
یہ پیش رفتیں گجرات میں بی جے پی کے مخالفین کے بارے میں کیا بتاتی ہیں؟ اے پی پی ان سنگین واقعات پر خاموش ہے اور گجرات کانگریس نے صرف زیرلب تبصرے کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
یہ بی جے پی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس نے اکثریت پسندی کو اس قدر مرکزی دھارے میں شامل کر دیا ہے کہ اس کے مخالفین بھی اصولی یا اخلاقی موقف کے بجائے ہندوتوا کا نرم موقف اپنا کر دامن بچاتے ہیں۔ انہیں اکثریت کے ووٹوں سے محروم ہوجانے کا خوف ہے۔ وہ بھی اکثریتی برادری کے ووٹروں کو بی جے پی کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انہیں جس بات کی فکر ہے وہ مسلمانوں کی تذلیل اور بے عزتی ہے۔ کسی بھی حقیقی مسائل سے زیادہ۔
یہ ہماری سیاست کی ایک خوفناک جھلک ہے اور یہ کہ صورتحال اور کتنی خراب ہوسکتی ہے۔
بشکریہ : این ڈی ٹی وی
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News