
بول نیوز کو موصولہ اطلاعات کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے گرانٹ میں کٹوتی کے بعد صوبے کی سب سے قدیم یونیورسٹی، جامعہ بلوچستان کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔یونیورسٹی کی ایمپلائز کمیٹی کے مطابق، مالی مسائل سنگین ہو گئے ہیں کیونکہ ملازمین اور پنشنرز کو حالیہ چند مہینوں میں ان کے واجبات اور تنخواہوں کا صرف آدھا حصہ ملا ہے۔اس بحران کے نتیجے میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران جامعہ کے مالی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یونیورسٹی حکام نے بھی تشویشناک صورتحال کی تصدیق کرتے ہوئے فنڈز کی عدم فراہمی کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔یونیورسٹی حکام کے مطابق سیٹ اپ کے معاملات مختلف بینکوں کے قرضوں پر چلائے جا رہے ہیں جو ایک ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پنشنرز اور کنٹریکٹرز کے 4 ہزار ملین روپے سے زائد کی ادائیگی یونیورسٹی کی جانب سے ہونی ہے۔
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اکیڈمک ا سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یونیورسٹی کے مالی بحران سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن پروفیسرز اور اساتذہ کو کلاس رومز میں اپنی ڈیوٹی ادا کرنی چاہیے تھی، وہ اب اپنی تنخواہوں اور واجبات کے لیے سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر یونیورسٹی آف بلوچستان کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے ڈاکٹر شفیق الرحمان کا کہنا ہےکہ ہر سال قابل نوجوان اساتذہ کو اسکالرشپ پر بیرون ملک بھیجا جائے تاکہ وہ نہ صرف دنیا کی بڑی اور نامور یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں لے کر آئیں بلکہ ہمارے مقامی اداروں کو ایک اور سطح پر لے جانے کے لیے جدید نظریات اور تصورات بھی لے کر آئیں۔اس کے بجائے انہیں تنخواہ جیسے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی ایسے منصوبوں کو شروع کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہی ہے جس سے فنڈز حاصل کیے جا سکتے تھے۔یونیورسٹی کے مالی بحران نے پروفیسرز، اساتذہ اور ملازمین کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ نے کہا کہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے 2022ء-23ء میں پیش کیا گیا بجٹ 700 ارب روپے کا تھا اور حیران کن بات یہ ہے کہ 700 ارب روپے میں سے صوبے کی 11 جامعات کو گرانٹس اور امداد کی مد میں صرف ڈھائی ارب روپے جاری کیے گئے۔11 جامعات کے لیے ڈھائی ارب روپے کی معمولی رقم ہر طرح سےجامعات کی مالی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
ترجمان جوائنٹ ایکشن کمیٹی یونیورسٹی آف بلوچستان شاہ علی بگٹی نے کہا ہے کہ یونیورسٹی گزشتہ دو سالوں سے شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اب صورتحال سنگین ہے۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کمیٹی نے متعدد بار اخباری بیانات اور احتجاج کے ذریعے وفاقی و صوبائی حکومتوں، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وائس چانسلر کی توجہ مبذول کرائی ہے لیکن لگتا ہے کہ حکام مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اگست 2022ء میں صوبے میں قائم نپبلک سیکٹر کی دس جامعات کے لیے ڈھائی ارب روپے کی گرانٹ ان ایڈ کے فوری اجراء کی منظوری دی تھی۔یونیورسٹی آف بلوچستان کے خزانچی جیاند خان جمالدینی نے بول نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2016ء کے بعد ایچ ای سی نے یونیورسٹی کے فنڈز روک لیے ، جس کے بعد سے اب تک بلوچستان کی قدیم ترین یونیورسٹی مالی بحران سے گزر رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ یونیورسٹی کو ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کی مد میں تقریباً 250 ملین روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جیاند خان جمالدینی نے مزید کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ تنخواہیں وقت پر دینے کے لیے بہترین کوشش کر رہی ہے لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت سے تعاون نہیں مل رہا۔تقریباً 13 یونیورسٹیاں پہلے ہی اپنے واجب الادا حصےکی منتظر ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News