
نوجوان فنکاروں نے فکرانگیز فن پاروں کے ذریعے عوام کے سلگتے ہوئے مسائل سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکیا۔
شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیجز(SABS) جامشورو نے طلباء کو اپنی صلاحیتوں کو جاننےاورجائزہ لینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے اپنے 17ویں سالانہ ڈگری شو کا انعقاد کیا۔
تقریب کے دوران، طلباء کو اپنے منتخب منصوبوں جیسے پینٹنگز، مجسمہ سازی، سرامکس اور پرنٹ میکنگ کو مکمل کرنے کے عمل کی تربیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
اس تقریب کا بنیادی مقصد نوجوان تربیت یافتہ فنکاروں اور ڈیزائنرز کے طور پر اپنے تخلیقی شعبوں میں داخل ہونے کے لیے طالب علموں کو ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد فراہم کرنا اوران کے لیے ضروری مہارتوں کوحاصل کرنا تھا۔
تقریباً 25 فارغ التحصیل طلباء نے اپنے فن پاروں کے ذریعے اپنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کے مقاصد کے حصول میں تھیسس کوآرڈینیٹرز پینٹنگ شوکت علی کھوکھر اور کاشف شہزاد، منی ایچر پینٹنگ میں امجد علی تالپور، پرنٹ میکنگ میں فضل الٰہی خان، مجسمہ سازی میں صفدرعلی اورسرامکس میں قرات العین سمیت اساتذہ نے مدد اور رہنمائی کی۔تقریب میں زبیر احمد بھٹو، ساجد علی تالپور، نصرت منگی اور طاہر علی نے بطور تھیسس ایڈوائزرشرکت کی۔
عصری موضوعات پر اریبہ مغل نے ’بالواسطہ سچائی‘ کے عنوان سے اپنے آرٹ ورکس میں معاشرے کی حالت پر توجہ دلانے کے لیے منی ایچر پینٹنگ کے روایتی طریقوں کا استعمال کیا۔
اپنے فن کے ذریعے اریبہ مغل نے اس پر روشنی ڈالی کہ معاشرے کے لوگ کس طرح دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ کرتے ہیں، اوران کے نتائج پرغورکیے بغیرمحض تفریح کے لیے دوسرے لوگوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے محاورے کا استعمال کیا۔ دوسروں کے ساتھ لوگوں کے رویوں کے لیے انہوں نے علامتی طورپرغبارے، کرسی اور ہتھوڑے کا استعمال کیا۔
سہرہ ایمان کا کام دماغی صحت کے بدنما داغ سے نمٹنا تھا۔ ان کے پرنٹ میکنگ کام، جس کا عنوان’ذہنی پسماندگی‘تھا، میں وہ ضرورت سے زیادہ دوائیں دکھائی گئیں جو ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے والے شخص کومعاشرے کی نظروں میں معمول کے مطابق کام کرنے کے لیے لینا پڑتی ہیں۔
وہ خود بھی ایسے حالات سے گزری تھیں اور اپنے فن پاروں کے ذریعے انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ شیئر کیا۔
ایمن فاطمہ کی پرنٹ میکنگ ورکس جس کا عنوان ’مصیبت‘تھا،اس میں احترام کے نام پر معاشرے میں پائی جانے والی رواداری پرتنقید کی گئی۔ لاکھوں نوجوان روشن دماغ افراد اس غیرفطری رویے کی وجہ سے مارے گئے۔
سدرہ ظفر کے سرامکس کے غباروں میں محبت، خوشی اورمسرت کی تصویرکشی کی گئی۔ ان کی تخلیقات کا عنوان ’یوفوریا‘تھا، جس میں خوشی اور مسرت کے حقیقی معنی کے بارے میں بات کی گئی ۔ سدرہ ظفر نے اپنی تھیم کو پیش کرنے کے لیے علامتی طور پرتحائف کا استعمال کیا، کیونکہ تحائف محبت اور خوشی کی علامت ہیں۔
وہ یہ بتانا چاہتی تھیں کہ خوشی وقتی احساس ہے، لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پائیدار ہے۔ سدرہ طفر نے ایسے غبارے استعمال کیے جو خوشی کی علامت ہیں، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اپنی شکل وصورت کھو دیتے ہیں۔
منیبہ کے ’فیس دی فریٹس‘ سرامکس کے کام میں اس خوف کی تصویر کشی کی گئی ہے جو ایک شخص برے خواب کا سامنا کرنے پرمحسوس کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ لوگ اس طرح کے احساسات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک کہ وہ اس سے خود نہ گزریں۔
اپنے آرٹ ورک کے ذریعے انہوں نے یہ دکھایا کہ کس طرح ڈراؤنے خواب کا خوف حقیقت بن جاتا ہے اور یہ کہ ڈراؤنا خواب دیکھتے ہوئے انسان خوفزدہ ہوجاتا ہے، لیکن انسان کو تنہا اس سے نمٹنا پڑتا ہے۔انہوں نے اپنے کاموں میں علامتی طور پر ایک جوکرکی تصویر کا استعمال کیا، جو خوشی کی علامت ہے لیکن خوف بھی پیدا کرسکتا ہے۔
فیصل چنہ کے دروازے کے مجسمے، ایک خاص سمت میں دروازے کے کھلنے کے خیال کے گرد بنائے گئے تھے، جس کا مطلب تھا دھکیلنا یا کھولنے کے لیے کھینچنا، یعنی دروازے کو دونوں سمتوں میں کھولا بند کیا جا سکتا ہے اوریہ کسی شخص کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے۔انہوں نے نارمن ڈورکی اصطلاح کوبطوراستعارہ استعمال کیا اوراس اصطلاح کولوگوں کے سماجی اورخود ساختہ رویوں سے مربوط کردیا۔
دروازے کے دو معنی ہیں، جب یہ کسی کے لیے کھلتا ہے تو امید اورخوشی دیتا ہے اور جب بند ہوتا ہے تو خوف اور مایوسی پیدا کرتا ہے۔ اس لیے دروازے لوگوں کی زندگیوں میں ایک اہم حصہ رکھتے ہیں، جس پر فیصل چنہ نے اپنے مجسموں کے ذریعے بحث کی۔
محسن مصطفیٰ اور محمد حسین نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے ایک ہی چیز کے مختلف زاویے پیش کیے۔
تقریب میں مختلف فنکاروں کے فن پارے بھی شامل تھے جن میں اظہرشیرازکی ’ریسٹ ان پیس‘ کے عنوان سے پینٹنگز، واریشہ غوری کی ’کمزوری‘،عاصمہ سعید میمن کی ’دی پوئیٹکس آف اسپیس‘، شیوا رام کی ’ہپنوٹک سنسنیشن‘، حمدہ اعظم کا ’فاسلے‘، مریم خان کی ’خواہش‘؛ انا خواجہ کی ’ثقافتی تنوع‘ شامل ہیں۔
عائشہ عاصمہ کی’دل تو بچہ ہے‘، اقصیٰ عابد کی ’بہت دورکی خوبصورتی اکثرعیب دار ہوتی ہے‘، کنیزفاطمہ کی’انٹروانسپیکشن اینڈ کیتھارسس‘؛آیان آفتاب حسین کا ’نو سگنل‘، تحریم میمن کی ’یاد تازہ‘، ماروی قاضی کی ’داستان‘، آصفہ شیرکی ’خزانہ‘، شرمین عمرانی کی ’عام‘؛ اریشہ خان کی ’کمپوزیشن آف ڈیکمپوزیشن‘ اورماہم مغل کا ’اضطراب (بے چینی) بھی اس تقریب کے دوران موضوع گفتگو رہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News