
سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی بارویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے پہلی بار مرکزی تقریب گڑھی خدا بخش کے بجائے جائے شہادت لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد کی جا رہی ہے، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری برسی کی تقریب سے خطاب کریں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو سے دختر مشرق کا سفر طے کرنے والی بےنظیر، پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ایک عہد تھیں جو 27 دسمبر 2007 کو تمام ہوا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 12 ویں برسی
راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گھات لگائے قاتل نے گولی چلائی اور جمہوریت کی بلند آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
21جون 1953 کو کراچی میں پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملکی سیاست کا ایک درخشاں ستارہ بنی۔
جوانی میں قدم رکھا تواعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ کا انتخاب کیا۔
تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کمال کر دکھایا، اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قید سے لے کر پھانسی تک آمریت کے دور میں بینظیر بھٹو نے ہر مصیبت اور مشکل کا ثابت قدمی اوردلیری سے مقابلہ کیا۔
شہید بینظیر بھٹونے اپنے والد ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی تختۂ دار پر چڑھتے دیکھا، بسا اوقات انہیں سمجھوتوں اور مفاہمت کرنے پر ہدف تنقید بننا پڑا لیکن اپنے سیاسی ورثے کو بھی بخوبی آگے بڑھایا۔
وہ آکسفورڈ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر بھی رہیں، بے نظیر کی حقیقی آزمائش ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد شروع ہوئی، بے نظیر کہتی ہیں میں،میری والدہ اور خاندان کے لوگ مکمل دل شکستہ ہو چکے تھے لیکن چونکہ میں نے والد سے ان کا مشن آگے بڑھانے کا وعدہ کیا تھا لہٰذا میں نے متحرک کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
1986 میں بینظیر بھٹو جلاوطنی کاٹ کر واپس وطن لوٹیں تو پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بن کر سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا اور 1987 میں آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔
بینظیر بھٹو 1988 میں پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تاہم ان کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20 ماہ بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
1993ء میں ایک بار پھر حکومت ملی لیکن 3 برس بعد 1996 میں انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا۔
1998 میں بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطن ہو گئیں اور کبھی لندن تو کبھی دبئی میں سکونت اختیار کی۔
18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو وطن واپس تشریف لائیں تو کراچی ایئرپورٹ پر لاکھوں کارکنوں نے ان کا تاریخی استقبال کیا ۔
بینظیر بھٹو کو کراچی ایئرپورٹ سے قافلے کی صورت میں لے جایا گیاکہ اس دوران کارساز کے مقام پر ان کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا، اس حملے میں درجنوں کارکن لقمہ اجل بنے تاہم بینظیر بھٹو محفوظ رہیں۔
27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے دوران کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا تو قاتل نے گولی چلا دی اور یوں دختر مشرق ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گئیں۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کا مشن مکمل ہونے تک جدوجہد جاری رکھوں گا، تاریخ شہید بینظیر بھٹو کی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہےکہ آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر سازشیوں کے عزائم کو ناکام بنایا تھا، عوام بہادر قائد کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جس نے سب کچھ قربان کر دیا، شہید بینظیر بھٹو نظریات کے لیے بڑی بہادری سے لڑیں، انہوں نے جیالوں کو متحد کیا اور آمر ضیا کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ نظریات کی خاطر ہی ذوالفقار بھٹو نے پھانسی کا پھندہ گلے لگایا تھا، شہید بینظیر بھٹو کو قید تنہائی اور جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، انہوں نے آمریت کو شکست سے ہمکنار کیا
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News