سپریم کورٹ نےخواتین کے مقدمات میں خاتون انویسٹی گیشن افسرسے تفتیش یقینی بنانے کاحکم دےدیاہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خلع کے بعد گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے اغوا سے متعلق درخواست پر سماعت کی، اس دوران سپرنٹنڈنٹ پولیس عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ایس پی نےانسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کوصاحب کہہ کرمخاطب کیا تو اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کی سرزنش کرتےہوئےکہاکہ آئی جی صاحب کوئی نہیں ہوتا،آئی جی صرف آئی جی ہوتا ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہم نے 1947 میں آزادی حاصل کرلی تھی لیکن پولیس ابھی تک انگریز کے دور میں ہے، دنیا میں کہیں آئی جی کو آئی جی صاحب نہیں کہا جاتا۔
انہوں نے ریمارکس دیئےکہ پولیس اپنی ذہنیت تبدیل کرے اورغلامیت سےنکل جائے۔
سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نےمذکورہ کیس میں مرد تفتیشی افسرمقررکرنےپربھی برہمی کااظہار کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دئیےکہ ایس اوپی کےمطابق خواتین کےمقدمات میں خاتون تفتیشی افسر تفتیش کرسکتی ہے۔
اسی پرعدالت کو وکیل نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں خاتون کو مبینہ طور پراغواسےمتعلق معاملے میں مردآئی اوسےتفتیش کروائی گئی۔
وکیل نے بتایا کہ مردآئی او کی تفتیش پرعدالت میں سوال اٹھاتوایس پی نے آئی اوکوشوکاز نوٹس جاری کیا۔
اس پر عدالت نے ایس پی کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کرنے پر سوال اٹھایااورکہا کہ کیا ایس پی اپنے ماتحت جس کو وہ خود تعینات کرتا ہے شوکاز نوٹس جاری کر سکتا؟ جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ایس پی شوکاز نوٹس نہیں جاری کرسکتا، شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔
بعد ازاں عدالت نےتفتیش کےلیےمردافسرمقررکرنے پرمتعلقہ تھانےکےاسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔
عدالت نے مذکورہ درخواست کونمٹاتےہوئےآئی جی پنجاب کوایس اوپی تمام تھانوں میں آویزاں کرانےکابھی حکم دیا جبکہ ایس او پی کا اردو ترجمہ تمام ایس ایچ اوز تک پہنچانے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
