
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنادیا
لاہور ہائی کورٹ نے تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حفاظتی ضمانت 3 مارچ تک منظور کرلی جب کہ تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے تھانہ سنگجانی میں درج مقدمہ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔ عمران خان کی جانب سے ان کے وکلا خواجہ طارق رحیم اوراظہر صدیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ایک ہفتے کے لیے سابق وزیراعظم عمران خان کی ضمانت منظور کی جس پر چیئرمین پی ٹی آئی نے حفاظتی ضمانت بڑھانے کی استدعا کی جس پر عدالت نے 3 مارچ تک ضمانت منظور کرلی۔
لاہور ہائی کورٹ نے حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت اور تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کے لیے عمران خان کو پیش ہونے کا آخری موقع دیا تھا جس کے بعد وہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کے لیے شام 5 بجے کا وقت دیا تھا تاہم عمران خان تقریباً 5 بجکر 50 منٹ پر ہائی کورٹ کے احاطے میں پہنچے، احاطے میں عمران خان کافی دیر تک موجود رہے۔
اس دوران تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی حاضری قبول کی جائے، انہیں وہیل چیئر پر احاطے سے کمرہ عدالت میں لانا ممکن نہیں تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی اور عمران خان کو ہر صورت عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
ضمانت ملنے کے بعد عمران خان کا بیان
کمرہ عدالت کے باہر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میری ٹانگ کی ہڈی تقریبا جڑ چکی ہے، 28 فروری کو ایکسرے ہونا ہے تاہم اس دوران اگر کوئی بھی جھٹکا لگ گیا تو نقصان ہو سکتا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میرا عدلیہ کیلئے بہت احترام ہے، میری پارٹی کا تو نام ہی انصاف اور قانون کی حکمرانی پر ہے، میں ایک گھنٹے سے کوشش کرتا رہا ہوں کہ عدالت کیلئے گاڑی سے نکل آؤں۔
اس سے قبل جسٹس علی باقر نجفی نے سوال کیا کہ عمران خان کہاں ہیں اور کون عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے سے روک رہا ہے جس پر ان کے وکیل اظہر صدیق نے جواب دیا کہ عمران خان ریمپ کے پاس گاڑی میں بیٹھے ہیں اور پولیس مدد کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی ایماء پر سری نگر ہائی وے بلاک کرنے کا الزام ہے جس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ اس کیس میں تمام شریک ملزمان کی عبوری ضمانتیں کنفرم ہو چکی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ عمران خان نے عدالت سے رجوع کرنے میں کیوں اتنا وقت لیا، عمران خان کیا اس کیس میں اشتہاری ہو چکے ہیں جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ نہیں عمران خان اشتہاری نہیں ہیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو 5 منٹ میں کمرہ عدالت مین پیش کریں۔ عدالت نے سکیورٹی انچارج ایس ایس پی کو بھی عدالت میں طلب کرلیا۔
خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ رجسٹرار لاہورہائیکورٹ کو کہیں کہ عمران خان حاضری لگا لیں۔ جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ عمران خان اگر احاطہ عدالت پہنچ گئے تو انہیں عدالت میں پیش کریں۔ وکیل نے جواب دیا کہ رش کم کروائیں، عمران خان پیش ہو جاتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے سیکیورٹی انچارج نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان ابھی گاڑی میں ہی بیٹھے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ کو کہا ہے کہ عمران خان کو لیکر آئیں، ہم سراہتے ہیں کہ عمران خان احاطہ عدالت پہنچ گئے ہیں، عمران خان رضاکارانہ طور پر عدالت پیش ہو ہورہے ہیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ عبوری ضمانت کیلئے لازم ہے کہ ملزم عدالت میں پیش ہو۔ ایس ایس پی شعیب نے کہا کہ مجھے مہلت دیجئے میں عمران خان کو لیکر آتا ہوں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ جس بھی لیڈر کو ساتھ لیکر جانا ہے جائیں اور ملزم کو یہاں لیکر آئیں، عمران خان ہمارے سامنے ملزم ہیں، انہیں ساڑھے 7 بجے پیش کریں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت ساڑھے 7 تک ملتوی کردی جس کے بعد عمران خان کمرہ عدالت میں پیش ہوئے اور ججز نے عمران خان کو کمرہ عدالت میں دیکھ کر ایک ہفتے کی ضمانت منظور کرلی۔
تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست نمٹادی گئی
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کا معاملہ عمران خان کی جانب سے درخواست ضمانت واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست نمٹانے کے بعد عمران خان کو کمرہ عدالت میں بیٹھے رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ خان صاحب، آپ کی درخواست پر دستخط مختلف ہیں۔
اس پر عمران خان نے کہا پہلی ضمانت میرے دستخط اور منظوری کے بغیر فائل ہوئی، مجھے افسوس ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا آپ کو احتیاط کرنی چاہیے تھی جس پر عمران خان بولے کہ جیسے ہی پتا چلا میں نے اظہر صدیق کو درخواست واپس لینے کا کہا، پہلی درخواست ضمانت میری منظوری کے بغیر فائل ہوئی تھی۔
صبح سے چلنے والی سماعت کا احوال
عمران خان کے وکیل نے ٹریفک کی وجہ سے تاخیر سے پیش ہونے پر معذرت کرتے ہوئے اپنے دلائل پیش کیے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم کےمطابق سیکیورٹی معاملات کے لیے آئی جی سے ملاقات کی۔ ہم نے عمران خان کی آمد پر مال روڈ کو کلیئر کرنے کا کہا ۔رجسٹرار ہائیکورٹ نے مسجد گیٹ سے عمران خان کی گاڑی کو آنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کا آخری موقع دیتے ہوئے شام 5 بجے طلب کرلیا۔
عمران خان کی گاڑی کو ہائی کورٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت مسترد
سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار کدھر ہیں جس پر عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ سیکیورٹی خدشات کےباعث عمران خان کی گاڑی عدالت تک لانے کی اجازت کی درخواست جمع کرائی۔ رجسٹرار نے عدالت تک گاڑی لانے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کےلئے عدالت پیش ہونا چاہتے ہیں۔ عدالت عمران خان کی گاڑی کو عدالت کےسامنے تک آنے کی اجازت دے۔
وکیل نے بتایا کہ عمران خان راستے میں ہیں پانچ منٹ تک پیش ہوجائیں گے جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت نے دو بجے کا وقت رکھا تھا۔
وکیل نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کےمسائل ہیں جس پرعدالت نے کہا کہ سیکیورٹی دینا پولیس کا کام ہے عدالت کا نہیں جس کے بعد عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی۔
دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے غیرمتعلقہ اشخاص کو کمرہ عدالت سے نکالنے کا حکم دیا۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیے کہ عمران خان عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت کسی کو خصوصی رعایت نہیں دے سکتی۔ آپ اپنی درخواست پر دلائل شروع کریں۔
وکیل عمران خان نے دلائل دیے کہ ہم اس حفاظتی ضمانت کو واپس لینا چاہتے ہیں جس جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عدالت اس حوالے سے پہلے ہی فیصلہ جاری کرچکی ہے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ عدالت کےسامنےدرخواست عمران خان نےاپنے دستخط سے دائر نہیں کی جس پر عدالت نے کہا کہ تو پھر آپ یہ درخواست واپس کیسے لے سکتے ہیں۔ کیوں نہ عدالت توہین عدالت کےشوکاز نوٹس جاری کرے۔ آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہم غیرمشروط معافی مانگنے کےلیے تیار ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عدالت آپ کو توہین عدالت کےشوکاز نوٹس جاری کردیتی ہے۔ آپ تسلی سے بیٹھ کر جواب تیار کریں۔ حفاظتی ضمانت میں گھنٹے گھنٹے کی سماعت نہیں ہوتی۔
وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ عمران خان کے ان کی درخواستوں پردستخط نہیں ہیں۔ یہ تاثرنہ دیاجائے کہ وہ عدالت آنا نہیں چاہتے۔
عدالت نے کہا کہ عمران خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس دے دیتے ہیں۔ تین ہفتوں کی تاریخ مقررکردیتے ہیں وہ تین ہفتوں میں ٹھیک ہوکرعدالت آجائیں۔ یہ عدالت کی عزت کا معاملہ ہے۔ عدالت کو پتہ ہے کہ عدالت کی عزت کیسے کرانی ہے۔ عدالت توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کرتی صرف سادہ نوٹس دیتے ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو شام پانچ بجے تک پیش ہونے کا آخری موقع دے دیا جس پروکیل عمران خان نے کہا کہ آئی جی سے ہم کہہ لیتے ہیں کہ مال روڈ خالی کرایا جائے۔ عمران خان کو پیش ہونے کےلئے پانچ بجے تک کا وقت دے دیاجائے۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کےمقدمے میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر
عمران خان نے بنکنگ کیس میں حفاظتی ضمانت کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھا۔ بنکنگ مقدمے میں عمران خان کواسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف مل چکا ہے۔ عمران خان کے وکلا نے ریلیف کی بنا پراہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی تھی۔
واضح رہے کہ حفاظتی ضمانت کی درخواست میں عمران خان کے مختلف دستخط کا کیس لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں چل رہا ہے جبکہ تھاناسنگجانی میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جج علی باقر نجفی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News